سابق سیکرٹری جنرل امورِ خارجہ جناب شمشاد احمد خان کا شمار پاکستان فارن آفس کے ذہین، دور اندیش، معاملہ فہم اور قومی مفادات کے حوالے سے جذباتی حد تک حساس سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کو مئی 1998کے وہ دِن یاد آئے ، جب انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان تاریخ کے نازک اور فیصلہ کُن دوراہے پر کھڑا تھا۔ امریکہ سمیت ہمارے اکثر مہربان جوابی دھماکے نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ وزیراعظم اگرچہ جوابی دھماکوں کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کے لئے اُنہوں نے 28مئی سے دس بارہ دِن قبل ہی نیوکلیئر سائنسدانوں کو تیاریوں کے لئے کہہ دیا تھا۔ اس دوران وہ سعودی عرب جیسے سچے اور پکے دوستوں کو اعتماد میں لینے کے علاوہ اندرونِ ملک بھی مشاورت میں مصروف تھے۔ ایسی ہی ایک مجلس میں شمشاد احمد خان بھی تھے۔ مشاہد اللہ خان کا خیال تھا، فارن آفس کے بابو، امریکہ سمیت ایک دُنیا کے دباؤ کی مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا مشورہ دیں گے، لیکن ان کا قیاس غلط ثابت ہوا، شمشاد خان ، فارن آفس کی جرأت مندانہ نمائندگی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کو مسترد کرنے کا مشورہ دے رہے تھے کہ اُن کے خیال میں انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد، پاکستان کے لیے جوابی دھماکوں کے سوا سرے سے کوئی آبرومندانہ آپشن نہیں رہا تھا۔ برادرمسلم ممالک بھی اس حوالے سے پُرجوش تھے ۔ اسلام آباد میں مقیم مسلم سفیر بھی کہہ رہے تھے، پاکستان کے پاس اگر ’’کچھ‘‘ ہے، تو کردو۔ یہاں انہوں نے ایک دلچسپ بات بھی بتائی، جنرل کرامت اس حوالے سے متذبذب تھے، اُن کا کہنا تھا، سر! سوچ لیں، نفع نقصان کے میزانیے کااحتیاط سے جائزہ لے لیں!
اتوار کی سہ پہر یہ تبادلۂ خیال کی ایک محفل تھی، مقامی ہوٹل میں جس کا اہتمام محمد مہدی نے کیا تھا۔ مہدی کا شمار شہر کے نمایاں پولیٹیکل ایکٹوسٹ میں ہوتا ہے جو پڑھنے لکھنے کا وافر ذوق بھی رکھتا ہے۔ برسوں پہلے جنرل اسلم بیگ لاہور آتے، تو یہ ان کے ساتھ دکھائی دیتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل بیگ نے اپنی سیاسی جماعت بنالی تھی لیکن یہ ایک مختلف اورمشکل کام تھا۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں آج جنرل صاحب کی جماعت کا نام بھی یاد ہوگا۔ خود ہم نے ذہن پر خاصا زور دیا تو یادآیا، عوامی قیادت پارٹی۔
لاہور میں اس کی نمائندگی محمد مہدی کرتا۔ پانچ سات سال کی سعی ٔ رائیگاں کے بعد جنرل صاحب نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا تو مہدی مسلم لیگ(ن) میں چلا آیا۔ مہدی جیسے مخلص اور باصلاحیت لوگوں کو دیکھ کر خواجہ سعد رفیق کی بات یاد آتی ہے کہ اپنے ہاں سیاست میں، کوئی نمایاں مقام، کوئی بڑا عہدہ حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے محض خلوص اور صلاحیت کافی نہیں۔ جیب میں پیسے ہونا بھی ضروری ہے اور مہدی میں یہی کمی ہے۔ چونکہ اس میں لکھنے پڑھنے کے سوا، کوئی اور ’’عیب‘‘ نہیں، اس لیے اپنی حق حلال کی کمائی میں سے وہ اتنے پیسے بچا لیتا ہے کہ دو، ڈھائی ماہ میں ایک آدھ بار، کسی اہم قومی مسئلے پر کچھ دانشورانِ شہر کو کسی اچھے ہوٹل میں تبادلۂ خیال کے لیے جمع کرلے۔
اس دفعہ چائنا پاک اکنامک کاریڈور (CPEC) موضوع تھا۔ کلیدی خطاب جناب شمشاد احمد خان تھا۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات اور پنجاب یونیورسٹی پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈاکٹر امجد عباس مگسی بھی تھے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کے لئے محمد مہدی کو انکار کرنا مشکل تھا، چنانچہ اسلام آباد سے وہ بھی چلے آئے۔
شمشاد خان نے یہ دلچسپ نکتہ اُٹھایا ، CPEC بلاشبہ ایک ’’گیم چینجر‘‘ ہے، لیکن مناسب ہوگا کہ ہم اس کے لئے یہ لفظ استعمال نہ کریں، کہ اس سے اس منصوبے کے مخالفین مزید الرٹ ہوتے ہیں، یہ ایک طرح سے ان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہوتا ہے جس سے ان کے اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ، پاکستان کی ترقی ، معاشی استحکام اور خودکفالت کا سفر ہمارے بعض دوستوں کو کھلتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم بڑے بڑے دعوے اور نعرے لگانے (پنجاب میں بڑھک بازی کہہ لیں) کی بجائے اپنے بڑے بڑے منصوبوں کو’’لو پروفائل ‘‘ میں رکھیں۔ CPEC کی انڈیا ہی کو تکلیف نہیں، ہمارے امریکی دوستوں کو بھی اس پر تشویش ہے۔ ہمارے ایک اور پڑوسی کی طرف سے بھی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ شمشاد خان کا کہنا تھا، CPEC محض سڑکوں اور پلوں کا منصوبہ نہیں، یہ ایک تصور اور وژن کا اہم حصہ ہے۔ ’’کولڈ وار‘‘ بظاہر ختم ہوچکی، لیکن امریکہ میں ڈرائیونگ سیٹ پر اب بھی ’’کولڈ واریئر‘‘ موجود ہیں۔ چین(اور روس) کی containmentاب بھی ان کی پالیسی ہے۔’’Asian Pivot‘‘ کا مطلوب و مقصود بھی یہی ہے۔ CPEC ، اسی Asian Pivot کے جواب میں چینی وژن کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا، یہ منصوبہ بلاشبہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے جسے ہمیں بہرصورت مکمل کرنا ہے اور اِسے کسی طور’’کالاباغ‘‘ کی طرح متنازع نہیں بننے دینا۔
پاک امریکہ تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، پاکستان کے فوجی ادوار میں engagement اور جمہوری ادوار میں عموماً estrangementکی پالیسی رہی۔ ایک سپر پاور کے ساتھ اچھے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین چیلنج ہیں۔ اس سے بگاڑ ہمارے قومی مفاد میں نہیں ، لیکن اس کی خوشنودی کے لئے ہم اپنے قومی مفادات سے روگردانی بھی نہیں کرسکتے۔ اختلافی معاملات کو ہمیں کم سے کم سطح پر رکھنا ہے تاکہ damage کم سے کم ہو۔ یہاں انہوں نے ایک اور اہم بات کہی، دُنیا میں عزت انہی اقوام کی ہوتی ہے، جو اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور ان پر کسی سودے بازی پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ ایک مثال، نوازشریف نے امریکہ (اور دیگر ممالک) کی طرف سے کیرٹ اینڈ اسٹک کے تمام تر دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کردیئے ۔ اس پر ہمیں اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی ہوا لیکن دُنیا میں پاکستان کی عزت اور وقار کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ایٹمی دھماکوں کے چند ماہ بعد وزیراعظم پاکستان امریکہ گئے تو انہیں ایسا زبردست پروٹوکول ملا جو پاکستان کے کم کم وزرأاعظم کو نصیب ہوا۔ تب صدر کلنٹن کو یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہ تھی کہ نوازشریف کی جگہ، وہ بھی ہوتے تو یہی کچھ کرتے جو نوازشریف نے کیا۔ یہاں انہوںنے ایک اور پتے کی بات بھی کہی، نہایت اہم اور بنیادی بات۔ خارجہ پالیسی کو ملک کی داخلہ پالیسی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی ملک داخلی طور پر جتنا مضبوط و مستحکم ہوگا، معاشی لحاظ سے غیروں کی محتاجی سے جتنا آزادہوگا، اس کی خارجہ پالیسی اُتنی ہی زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوگی۔
پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا تھاCPEC محض اکنامک نہیں، اسٹریٹیجک منصوبہ بھی ہے۔ اسی باعث یہ غیروں کی نظر میں کھٹکتا ہے۔ اب قوموں کی سیکورٹی کا انحصار محض عسکری طاقت پر نہیں رہ گیا، اس کے لیے داخلی سطح پر سیاسی و معاشی استحکام اور سماجی و معاشرتی ترقی بھی ضروری ہے۔ وہ کہہ رہے تھے، سیاسی و جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی و جمہوری لوگ بھی تو اپنا کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ خود ارکانِ پارلیمنٹ (اورقائد ایوان بھی) اسے اہمیت دیں۔ انہوں نے ایک اور دلچسپ نکتہ بھی اُٹھایا ، قومی معاملات کے لیے جناب شہباز شریف کی دردمندی اپنی جگہ لیکن وہ اس حوالے سے اپنا رول کچھ کم کریں تاکہ پنجاب کی بالادستی کا تاثر قائم نہ ہو۔ ڈاکٹر امجد مگسی کا کہنا تھا، CPECکے لئے چھوٹے صوبوں کااطمینان اور اعتماد بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم نے بہت اچھا کیا کہ مغربی روٹ کے بارے میں تحفظات دور کرنے کے لئے اسفند یار ولی سے گزشتہ روز ملاقات کی۔ اُنہوں نے باقی ماندہ ڈھائی سال بھی بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کو دینے کی تجویز پیش کی۔
مشاہد اللہ خان نے سو باتوں کی ایک بات کہی، تمام مسائل کے حل کی شاہ کلید (Master Key)آئین پر عملدرآمد ہے۔ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں۔ یہاں انہوں نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا کہ، جمہوری ملکوں میں’’قیادت‘‘ ایک ہی ہوتی ہے۔ منتخب قیادت!