’’عمران خان سیاست کا دلچسپ کردار بنتے جارہے ہیں‘‘، سعد رفیق کے اس تبصرے کو، آپ چاہیں تو قدرے سخت کہہ لیں لیکن خان کے منہ سے ’’دھاندلی‘‘ کا لفظ اب واقعی مذاق بنتا جارہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر فرمایا،اب عام انتخابات سے بھی زیادہ دھاندلی ہوئی۔ ’’خان صاحب! بہت ہوچکی، خدا کے لئے اب بس کرو‘‘۔ لنچ پر کچھ دوست جمع تھے، میرے سوا، یہ سب پڑھے لکھے تھے، یونیورسٹی اور کالج کے اساتذہ ۔ ان میں زیادہ وہ تھے، 11مئی 2013کو جنہوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ نتائج ان کی توقع سے مختلف نکلے لیکن وہ مطمئن تھے۔ ’’تبدیلی‘‘ کی علمبردار تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں تیسرے لیکن پاپولر ووٹ میں دوسرے نمبر پر رہی تھی۔وہ پنجاب اسمبلی میں دوسرے نمبر پر اور خیبرپختونخوا میں سنگل لارجسٹ پارٹی تھی۔ مولانا نے یہاں اِسے حکومت سے باہر رکھنے کا منصوبہ بنا لیا تھا لیکن میاں صاحب نے اس کی’’ منظوری‘‘ نہ دی۔ خان آکسفورڈ کا فارغ التحصیل تھا۔ کرکٹر کے طور پر بھی اس کے بیشتر ماہ وسال انگلستان میں گزرے تھے ۔جمہوریت کو ایمان کا درجہ دینے والی انگریز اشرافیہ سے بھی اس کی اچھی رسم و راہ تھی جس کے ساتھ وہ لندن کی لائف انجوائے کرتا۔ اس نے وسط1996میں تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی جسے برگ و بار لانے میں تیرہ، چودہ سال لگ گئے۔ اب خان پاکستان کے بڑے لیڈروں میں شمار ہوتا تھا۔ اسے متبادل قیادت بھی سمجھا جانے لگا۔ یہ توقع بے جا نہ تھی کہ وفاق اور پنجاب میں اس کی تحریکِ انصاف تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ خیبر پختونخوا کو وہ ایسا مثالی صوبہ بنادے گی جو دوسرے صوبوں کے لئے تبدیلی کا استعارہ ہوگا اور اس کا فائدہ اِسے آئندہ عام انتخابات میں ہوگا۔(قومی سطح پر مسلم لیگ(ن) کی گڈوِل بڑھانے میں پنجاب میں شہبازشریف کی کارکردگی ایک اچھی مثال بنی تھی) لیکن کپتان نے دھرنوں کا راستہ اختیار کیا اور ’’تبدیلی‘‘ کے لئے امپائر کی انگلی سے اُمیدیں وابستہ کر لیں۔ یہ منفی رویہ عوام میں عموماً اور پڑھے لکھے لوگوں میں خصوصاً مایوسی کا باعث بننے لگا جنہیں یہ توقع تھی کہ خان اپنی ناکامیوں کے اسباب کا سنجیدگی سے جائزہ لے گا لیکن اِدھر ایک ہی بات تھی،’’ دھاندلی ہوگئی‘‘۔
لنچ میں موجود یونیورسٹی کا وہ استاد بھی اِن ہی میں سے تھا۔ اب بلدیاتی انتخابات میں بھی دھاندلی کی بات پر جو اپنی تلخی چھپا نہ سکا اور چیخ اُٹھا، ’’خان صاحب! بہت ہوچکی، خدا کے لئے اب بس کرو‘‘ اورلنچ میںموجود دوستوں نے اس کی تائید کی تھی۔ ہمارے دوست، اچھی یادداشت رکھنے والے کالم نگارنے مشرف کی آٹھ، دس سال پرانی بات یاد دلائی ہے ، ’’عمران خان کو ہر وقت رونے کی عادت ہے‘‘۔
پاکستان میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو11مئی 2013کے عام انتخابات کے نتائج کی توثیق بھی قرار دیا جارہا ہے لیکن تحریکِ انصاف تو ان حلقوں میں بھی پٹ گئی، جہاں مئی 2013کے انتخابات میں فتح مند رہی تھی۔ ویسے تو ڈھلوان کا یہ سفر عام انتخابات کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھاجب میانوالی اور پشاور میں خان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف ہار گئی تھی۔ دھرنوں کے بعد یہ سفر تیز تر ہوگیا اور پے در پے شکستیں اس کا مقدر بن گئیں۔ کینٹ کے علاقے 2013کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کا مضبوط گڑھ تھے، کینٹ بورڈ ز کے انتخابات میں یہ بھی تحریکِ انصاف کے ہاتھ سے نکل گئے۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق کے حلقہ(125)میں دونوں کینٹ بورڈز کی 20نشستوں میں سے 15پر خواجہ کے اُمیدوار جیت گئے۔ ملتان، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اورپنڈی کینٹ بورڈز میں بھی یہی ہوا۔
اب بلدیاتی انتخابات میں ملتان بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا۔ یہاں 2013میں قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں پی ٹی آئی (جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی ) نے جیت لی تھیں۔ راولپنڈی میں بھی یہی منظر تھا۔ یہاں گریٹ خان اور فرزند لال حویلی کے اُمیدوار بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ سیالکوٹ میں خواجہ آصف کا حلقہ ان چار حلقوں میں شامل تھا، خان جنہیں کھولنے کا مطالبہ کرتا رہا تھا۔ اب بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی نے خواجہ آصف کے خلاف دھاندلی کے الزامات کی قلعی کھول دی۔
بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف کی شکست اِس سے اُمیدیں وابستہ کرلینے والے، ہمارے تجزیہ کار اور کالم نگاردوستوں کے لئے بھی مایوسی لائی ہے۔ اس حوالے سے اِن کے تجزیے زیادہ دیانتدارانہ اور حقیقت پسندانہ ہیں۔ ان کے نزدیک دھاندلی کی بات بے معنی ہوچکی۔ ہمارے ہم نام ایک تجزیہ کار نے جو مسلم لیگ(ن) پر تنقید میں عموماً جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں،اپنے ضلع(لیّہ ) کے حوالے سے لکھا:تحریکِ انصاف سے توقع تھی لیکن داد دیجئے، شاہ محمود قریشی کو جنہوں نے کچرا اور سیاسی گند تحریکِ انصاف میں بھر دیا ۔ لیّہ میں بھی اسی طرح کا کچرا اکٹھا کیا گیا ۔ پورا ضلع ان لوگوں کے حوالے کردیا گیا جو 2013میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ہارچکے تھے۔ تحریکِ انصاف کے اصل ورکرز کو ٹکٹیں دینے کی بجائے پیپلزپارٹی کے لوگوں میں بندر بانٹ کی گئی۔ ایک صاحب نے پہلے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ہارا، پھر ق لیگ میں جاگھسے ، اِس کے ٹکٹ پر بھی الیکشن ہارا، 2013میں معافی مانگ کر پھر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے، پھر ہارگئے۔ اب وہ لیّہ میں تحریکِ انصاف کے سربراہ ہیں۔ لگتا ہے، 2018میں بھی وہی اُمیدوار ہوں گے اور پھر ہاریں گے‘‘۔ المیہ کہانی جاری ہے:’’ہمارے علاقے میں ایک ایسا اُمیدوار تحریکِ انصاف کی طرف سے اُمیدوار ہے جو کسانوں کو بھاری سود پر قرضہ دیتا اور انہیں لوٹ کر کھا گیا ہے۔ عمران خان کسانوں کے حقوق کے لئے تقریریں کرتے نہیں تھکتے لیکن یہاں ان کے بلدیاتی اُمیدوار وہ ہیں جنہوں نے علاقے میں سود کا کاروبار عروج پر پہنچا دیا۔ جو کسان ملتا ہے، روتا ہے۔ تحریکِ انصاف اسی لئے دِن بدن تیزی سے ڈھلوان کا سفر طے کررہی ہے۔‘‘
حالیہ بلدیاتی انتخابات کو 2013کے مینڈیٹ کی توثیق قرار دینے والے تو بہت ہیں، ایسے بھی ہیں، جنہیں اس آئینے میں 2018کے عام انتخابات کی تصویر بھی نظر آرہی ہے۔ اِن میں وہ بھی ہیں جنہوں نے عمران خان سے محبت اور نوازشریف سے اپنی عداوت کو چھپانے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ ان میں سے ایک نے لکھا:’’یہ بات واضح ہے کہ کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی تو 2018کا الیکشن (ن) لیگ بآسانی جیت جائے گی اور تحریکِ انصاف کے باہم برسرِ پیکار دھڑے ایک دوسرے کا خون پیتے رہ جائیں گے‘‘۔
کسی خاص سیاسی و جماعتی وابستگی سے بالاتر ایک پی ایچ ڈی، تجزیہ نگار کے خیال میں، غالب امکان یہی ہے کہ 2018کے قومی انتخابات میں بھی یہ تینوں پارٹیاں(ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ) اپنے موجودہ حلقوں میں پھر سے برسرِ اقتدار آجائیں گی۔ (اس لحاظ سے) یہ تحریکِ انصاف، جماعت اسلامی اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے بُری خبر ہوسکتی ہے۔
2013کے بعد سے اب تک، خصوصاً گزشتہ ایک سال میں کراچی، سندھ اور پنجاب میں بالترتیب ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کو عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے محروم کرنے کی جو بھرپور کوششیں کی گئیں، وہ بری طرح ناکام ہوئی ہیں‘‘۔ فاضل تجزیہ نگارکے بقول بلدیاتی انتخابات کے اِن نتائج کی بنیادی وجہ کراچی ، سندھ اور پنجاب کے عوام کی بھاری اکثریت کا وہ ردّعمل ہے جسے انہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ان تینوں جماعتوں کو 2013کے انتخابات میں دیئے گئے مینڈیٹ سے محروم کرنے کی کوششوں کے خلاف دیا ہے اور گزشتہ انتخابات کو متنازع بنا کر ان تینوں جماعتوں کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دینے کی جو مختلف کوششیں ہورہی تھیں، پاکستان کے دو سب سے بڑے صوبوں نے ان کوششوں کو بری طرح رد کردیا ہے جس کا اثر یقیناً آنے والے انتخابات پر بھی پڑے گا‘‘۔ خان انڈیا کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوچکا۔ اِسے انڈیا میں جو محبت ملتی ہے، کرن تھاپر سے اپنے انٹرویو میں اس نے بلاتکلف اس کا اظہار کیا۔
اس کے بقول ، اس محبت نے انڈیا کے خلاف اس کے جذبات و احساسات کو بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے جو پیدائشی ’’لاہوریا‘‘ ہونے کے باعث اس میں پائے جاتے تھے‘‘۔ خان اب پھر انڈیا میں ہے۔ اللہ کرے ، آب وہوا کی یہ تبدیلی ، پاکستان کی سیاست کے حوالے سے بھی خان کے رویّے میں خوشگوار تبدیلی کا باعث بن جائے۔