• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختیارات کے بغیر بلدیاتی اداروں کا کوئی فائدہ نہیں

پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ایک قابل فخر باب کا اضافہ ہو گیا ہے کہ پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت کے دور میں مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات کا عمل خیر و خوبی کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے اور منتخب بلدیاتی حکومتیں وجود میں آ چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات انتہائی تشویش کے ساتھ ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ منتخب مقامی حکومتیں یا بلدیاتی ادارے موثر طور پر کام نہیں کر سکیں گے اور وہ مقامی سطح پر مسائل کو لوگوں کی توقع کے مطابق حل نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ مطلوبہ انتظامی اور مالیاتی اختیارات سے محروم ہیں ۔ قبل ازیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی ادارے بہت زیادہ خود مختار اور موثر تھے اور انہوں نے وہ کام کئے ، جن کی وجہ سے نہ صرف عوام کی نظر میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت میں اضافہ ہوا بلکہ عوام نے ان سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چاروں صوبوں کے عوام نے عام انتخابات کے مقابلے میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کیا ۔ اب اگر منتخب بلدیاتی ادارے پہلے کی طرح کام نہ کر سکے یا عوام کی توقعات پر پورے نہ اترے تو عوام میں زبردست مایوسی پیدا ہو گی اور اس کی ذمہ داری سیاسی اور جمہوری حکومتوں پر عائد ہو گی ۔ اس طرح کی خطرناک صورت حال پیدا ہونے سے پہلے سیاسی اور جمہوری حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ان منتخب مقامی حکومتوں یعنی بلدیاتی اداروں کو کم از کم اتنے مالیاتی اور انتظامی اختیارات منتقل کریں کہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ان کے منتخب کردہ مقامی ادارے ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نچلی سطح پر ان کے منتخب نمائندے با اختیار ہیں ۔ سیاسی قوتوں کو عوام میں پیدا ہونے والی مایوسی کے خطرناک نتائج کے بارے میں بتانا ضروری نہیں ہے ۔
جب بھی غیرجمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں ، انہوں نے اگرچہ ملک میں جمہوری نظام کا خاتمہ کیا لیکن انہوں نے بلدیاتی ادارے ضرور قائم کئے ، جن کے نتیجے میںان حکومتوں کے دور میں نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل کم ہوئے کیونکہ یہ مسائل حل ہوتے رہے ان حکومتوں کے خلاف اگرچہ جمہوری تحریکیں بھی چلیں ، جن میں یو ڈی ایف ، ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی تحریکیں قابل ذکر ہیں لیکن ان حکومتوں کے خلاف کوئی بڑی عوامی بغاوت نہیں ہوئی ۔ان حکومتوں نے منتخب بلدیاتی اداروں کی وجہ سے نہ صرف عوامی مزاحمت کو پھیلنے سے کسی حد تک روکا بلکہ انہیں اپنی حامی متبادل سیاسی قیادت بھی میسر آئی ۔ اس کے برعکس سول اور جمہوری حکومتوں نے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے بڑے بڑے کام کئے لیکن چونکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل موجود رہے اس لئے انہیں ان کاموں کا کوئی براہ راست ریلیف محسوس نہیں ہوا ۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے غیر سیاسی قوتوں نے سول اور جمہوری حکومتوں کے خلاف جو مصنوعی تحریکیں منظم کیں ، ان سے افرا تفری اور انتشار کا زیادہ خوف محسوس کرایا گیا اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے حالات کو سازگار بنایا گیا ۔ پی این اے کی جمہوریت دشمن تحریک اور 1990ء کے عشرے میں چار جمہوری حکومتوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریکیں اس کی مثال ہیں ۔ اس تاریخی تناظرمیں سیاسی قوتوں کو یہ اندازہ لگا لینا چاہئے کہ مضبوط اور موثر مقامی حکومتوں کے سیاسی اثرات کیا ہیں ۔ اگر جمہوری دور میں منتخب ہونے والی پہلی مقامی حکومتیں ڈلیور کرنے مین ناکام رہیں تو اس بات کے خطرناک اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ماضی میں سول حکومتوں نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ۔ موجودہ سول حکومتیں بھی نہیں چاہتی تھیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی بار بار مداخلت اور مسلسل کوششوں سے یہ بلدیاتی انتخابات کرانا پڑے ۔ سول حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ اپنا حریف تصور کیا ۔سیاسی قوتوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اب وہ ان بلدیاتی اداروں کو اپنی سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کرسکتی ہیں کیونکہ یہ ادارے نچلی سطح پر جمہوریت کو بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کا تصور جمہوریت سے ہی منسلک ہے ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جمہوری ادارے اس وقت تک موثر طور پر کام نہیں کر سکتے جب تک وہ نچلی سطح پر زیادہ مضبوط نہ ہوں ۔ بلوچستان کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ایک سال پہلے کرا لئے اور بلدیاتی انتخابات کو روکنے کی کوششیں نہیں کیں ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی قوانین میں بلدیاتی اداروں کو زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ پنجاب میں بھی نسبتاً صورت حال بہتر ہے اور وہاں کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات بھی کسی حد تک بہتر ہیں ۔ سندھ میں صورت حال بہت خراب ہے ۔ بہت کھینچا تانی کے بعد جو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور ہوا ہے ، وہ 1979 ء کے ایکٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہے اس میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات بہت کم ہیں ۔ ویسے تو پورے ملک میں بلدیاتی اداروں کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے لیکن سندھ میں یہ ضرورت زیادہ ہے۔ یہاں کے بلدیاتی ادارے اختیارات کے تناظر میں غیر فعال اور غیر موثر ہیں۔
سندھ کی سیاسی صورت حال میں بلدیاتی انتخابات کی بہت اہمیت ہے کیونکہ سندھ میں جو گورننس ہے ، اس کا ملک کی وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو یہاں کی گورننس کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرتا ہے بلکہ بعض حلقے تو یہ کہتے ہیں کہ ملک کی سب سے زیادہ خراب گورننس سندھ میں ہے ۔ یہ تو بھلا ہو رینجرز اور آرمی کا ، جنہوں نے حالات کو بہتر بنایا اور لوگ ووٹ ڈال سکے ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) مبارک باد کی مستحق ہے ، جس نے انتہائی مشکل حالات میں کراچی میں اپنا مینڈیٹ حاصل کیا ۔حیدرآباد، میرپورخاص اور کراچی میں ایم کیو ایم نے پھر سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ شہری سندھ میں اسے بلا شرکتِ غیرے حمایت حاصل ہے۔ یہ گڈگورننس ایک طاقت ہے ،ان کو اسے سندھ اور ملک کی بھلائی میں استعمال کرنا چاہئے۔ یہ کامیابی ایم کیو ایم کے لئےکامیابی کے ساتھ ساتھ ایک چیلنج بھی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی مبارک باد کی مستحق ہیں ، جنہوں نے اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں لوگوں کا اعتماد حاصل کیا ۔ لیکن اگر منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دیئے گئے اور انہیں کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا تو وہ لوگوں کو ڈلیور نہیں کر سکیں گے اور لوگوں کی مایوسی اور غم و غصے کی ذمہ دار سیاسی حکومت ہو گی ۔ ایم کیو ایم نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات میں اضافے کے لئے سندھ اسمبلی میں قرار داد جمع کرا دی ہے ۔ ایم کیوایم نے اگرچہ اس حوالے سے پہل کی ہے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے بھی یہی چاہتے ہیں کہ اختیارات میں اضافہ ہو ،یوں اختیارات میں اضافے کے لئے ایک تحریک بن سکتی ہے ۔ سندھ میں خراب گورننس اور کرپشن کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کی ذمہ داریاں اور ان سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں ۔ انہیں اختیارات نہ دینا ایک بڑی سیاسی غلطی ہو گی ۔ دنیا بھر میں مقامی ادارے زیادہ سے زیادہ مضبوط ہیں ۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے علاوہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتیں بہت زیادہ خود مختار اور موثر ہیں۔ اسی طرح دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی ہماری طرح کمزور مقامی حکومتیں نہیں ہیں ۔ ہماری قومی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ ارد گرد کے ممالک میں مقامی حکومتوں کو دیئے گئے اختیارات کا مطالعہ کریں ۔
پاکستان کی طرح کئی ممالک ایسے ہیں ، جو وفاق ہیں اور جہاں وفاقی آئین نافذ ہے ۔ ہمارے ایشیا میں بھارت اور ملائیشیا کی مثال لی جا سکتی ہے اور افریقہ میں نائیجیریا کی مثال لی جا سکتی ہے ، جہاں ہماری طرح ایک وفاقی حکومت ہے اور دوسری ریاستی یا صوبائی حکومتیں ہیں ۔ ان ممالک میں بھی مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ ہمارے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مقامی حکومتیں بااختیار ہونے سے وفاقی اکائیاں یعنی صوبے کمزور ہوں گے ، انہیں مذکورہ بالا ممالک میں مقامی حکومتوں کے نظام کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنی غلط فہمیاں دور کرنا چاہئیں ۔ اختیارات کے بغیر نہ صرف بلدیاتی ادارے عوام کے لئے کچھ ڈلیور نہیں کر سکیں گے بلکہ اس بات کا سیاسی نقصان ہماری سول اور جمہوری حکومتوں کو ہوگا ۔
تازہ ترین