احسن اقبال نے ڈکٹیٹر کے دور کا تذکرہ کیا، جب آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ میاں صاحب، ساری شریف فیملی کے ساتھ جلاوطن تھے۔ ایک حمزہ تھا جسے ڈکٹیٹر کی دست بُرد سے بچ رہنے والے کاروبار کی دیکھ بھال کے کئے پاکستان میں رہنے کی اِجازت ملی تھی۔ کہا جاتا ہے، شہباز صاحب جلاوطن ہونے کی بجائے لانڈھی جیل میں رہنے پر مصر تھے لیکن آخر کار انہیں بھی جِلاوطنی قبول کرنا پڑی۔ ڈکٹیٹر نے نوازشریف کی قیادت والی مسلم لیگ میں سے قاف لیگ تخلیق کر لی تھی جس کے کئے لالچ اور دھمکی کے سبھی حربے اختیار کئے گئے۔ احتساب ڈرامے کی حقیقت؟ پیر صاحب پگاڑا(مرحوم) نے دریا کو کوزے میں بند کردیا تھا، ایک ’’مصرعے‘‘ میں پوری غزل ہوگئی تھی، ’’پیسٹریاں کھانے والے پکڑے گئے (کہ اُنہوں نے اطاعت سے انکار کردیا تھا)۔ بیکریاں ہضم کرنے والے معزز و محترم قرار پائے ( کہ انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا تھا)۔
میاں صاحب جمہوریت کا علَم جنم جنم کے باغی کے سپرد کرگئے تھے۔ احسن اقبال اور سعد رفیق سودوزیاں سے بے نیاز ان سرپھروں میں تھے جو ہاشمی کی زیر قیادت جمہوریت کی جنگ لڑرہے تھے۔شہروں اور علاقوں کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔ سیالکوٹ 1965میں دفاعِ وطن کے حوالے سے ہی قومی تاریخ کی تابناک مثال نہیں بناتھا، آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھی اہلِ سیالکوٹ مزاحمت کا شاندار استعارہ تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد آمریت میں، جب مغربی پاکستان میں گورنر کالاباغ سیاہ سفید کامالک تھا، صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت کو دھاندلی سے ہرادیا گیا، پھر مغربی پاکستان اسمبلی کے انتخاب میں اپوزیشن جو تین چار نشستیں جیت سکی، اِن میں سیالکوٹ کی نشست بھی تھی، جہاں خواجہ صفدر(خواجہ محمد آصف کے والد محترم) کو شکست نہ دی جاسکی۔ تب نارووال بھی سیالکوٹ کا حصہ تھا (یہ 1991 میں ضلع بنا)2002کے عام انتخابات میں سیالکوٹ نے نوازشریف کے وفادار خواجہ آصف سے وفا نبھائی۔ نارووال میں احسن اقبال کو شکست دینے کے کئے دھونس دھاندلی کی انتہا کردی گئی۔ پریذائیڈنگ افسروں نے الیکشن حکام کو زورزبردستی کی ساری کہانیاں لکھ بھیجیں جس پر الیکشن کمیشن نے نتیجے کاسرکاری اعلان روک دیا لیکن تب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے’’ انکار‘‘ سے پہلے والی عدلیہ تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے احسن اقبال کی مدمقابل خاتون اُمیدوار کی کامیابی کا اعلان کردیا۔
ہفتے کی سہ پہر احسن اقبال ، خواجہ سعد رفیق کو اُن ہی دِنوں کی یاد دلارہے تھے جب جمہوریت کی جدوجہد میں سعد بھی نارووال آئے تھے۔ یہ نارووال ریلوے اسٹیشن کی تعمیر نو کے سنگِ بنیاد کی تقریب تھی۔ تباہ حال ریلوے، اِن ڈھائی برسوں میں بحالی کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو کئی اور منصوبوں کے ساتھ اس نے ملک بھر میں 16ریلوے اسٹیشنوں کی تزئین و تعمیرِنو کا منصوبہ بھی بنایا، اِن میں کراچی سٹی، کراچی کینٹ، حیدرآباد، سکھر، بہاولپور، نارووال، ساہیوال، اوکاڑہ، رائے ونڈ، گوجرانوالہ، راولپنڈی،ننکانہ صاحب، حسن ابدال، پشاور اور کوئٹہ شامل تھے(خواجہ صاحب نے ان کے ساتھ پانچ مزید اسٹیشنوں کا اِضافہ کردیا)۔ اس منصوبے کے آغاز کے لئے نارووال کا انتخاب ہوا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد جاوید انور کے مطابق 35کروڑ 51لاکھ کا یہ منصوبہ 16ماہ میں مکمل ہوگا۔ 62ہزار مربع فٹ کے کورڈ ایریا میں اسٹیشن کی جدید ترین بلڈنگ ، ایئر کنڈیشنڈ انتظارگاہیں، نماز کے لئے ہال، عورتوںاور مردوں کے علیحدہ واش رومز، ریزرویشن آفس، پارسل بکنگ آفس، بجلی کی مسلسل فراہمی کے لئے جنریٹر اور کارپارکنگ، جبکہ اسٹیشن کی عمارت سے ملحق شاپنگ مال، 38دُکانیں اور2اوپن اسکائی ریسٹورنٹ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ 24کنال پر مشتمل پارک، بچوں کے لئے جوائے لینڈ اور پلے پارک شامل ہیں۔ مستقبل کے ارادوں میں، اسٹیشن کے گردوپیش اراضی پرمیرج ہال، فوڈ اسٹریٹ، سپراسٹور، ویئرہاؤس، ریسٹورنٹ، بینکس اور کمرشل آرکیڈ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ احسن اقبال کے بقول یہ محض نئی عمارات کی تعمیر نہیں بلکہ ایک وژن ہے۔ اکثروبیشتر اسٹیشن شہروں کے درمیان آگئے ہیں تو کیوں نہ یہاں ریلوے اراضی کو(جو اَب کوڑیوں سے کروڑوں ، بلکہ اربوں کو پہنچ گئی ہے) کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے جس سے شہری بھی مستفید اور لطف اندوز ہوں اور ریلوے کے کئے بھی آمدن میں اضافہ ہو۔
احسن اقبال کے بقول، اب پاکستان ریلوے کا نیا منصوبہ نارووال کے حسن کو مزید نکھار دے گا۔ ریلوے اسٹیشن پر یہ تقریب ایک بڑے جلسے کی صورت اختیار کر گئی تھی، یوں لگتا تھا، سارا شہر اُمڈ آیا ہے۔ احسن نے ریلوے سے بات کا آغاز کیا، سعد رفیق کی دیانتدارانہ قیادت ، اس کے رفقا کی صلاحیت اور محنت کشوں کی ہمت و محنت نے تباہ حال ریلوے کو بحالی و ترقی کا استعارہ بنادیا ہے۔ وفاقی وزیر نے بات کو آگے بڑھایا، 2013میں امریکی میڈیا کا کہنا تھا، دُنیا کے سب سے خطرناک ملک میں الیکشن ہونے جارہے ہیں، نیوز ویک کی ٹائٹل اسٹوری تھی، دُنیا کا خطرناک ترین ملک عراق نہیں، پاکستان ہے۔ وہی مغربی میڈیا اب پاکستان کو ’’ٹرن اراؤنڈ اسٹوری‘‘ قرار دے رہا ہے۔ عالمی اِدارے پاکستانی معیشت کی بحالی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ انجینئر احسن اقبال، اب پروفیسر احسن اقبال چوہدری ہوگئے ہیں۔ پروفیسر صاحب سوال کر رہے تھے: لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی یا نہیں؟ دہشت گردی اور بدامنی کم ہوئی یا زیادہ؟ بلوچستان کے حالات میں بہتری آئی یا نہیں؟ کراچی میں حالات بہتر ہوئے ہیں یا بدتر؟ زرّمبادلہ کے ذخائر6ارب سے 20ارب ڈالر ہوگئے ہیں تو یہ بہتری ہے کہ نہیں؟ حاضرین باآوازِ بلند اثبات میں جواب دے رہے تھے۔ تب احسن اقبال کی حسِ مزاح نے انگڑائی لی، ’’تبدیلی تو آگئی۔ تبدیلی محنت، تجربے اور نیک نیتی سے آتی ہے۔ یہ کنٹینر پر جھوٹے الزامات لگانے اور بے بنیاد دعوے کرنے سے نہیں آتی۔ یہ اناڑیوں اور کھلاڑیوں کے بس کی بات نہیں‘‘۔ احسن نے ڈکٹیٹر کے دور سے بات شروع کی تھی، سعد نے اپنے اور احسن کے دورِ طالبِ علمی سے آغاز کیا، انہوں نے طلبہ سیاست کاآغاز ایک ہی پلیٹ فارم سے کیا تھا(اشارہ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف تھا۔) پھر فاصلے بھی پیدا ہوئے(سعد مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں چلے گئے اور لاہور کے بعض تعلیمی اِداروں میں اِسے جمعیت کے کئے چیلنج بنادیا)لیکن یہ فاصلے ، فکری و نظریاتی ہم آہنگی کو متاثر نہ کرسکے۔ پھر ڈکٹیٹر کے خلاف جنگ میں بھی وہ ہمقدم تھے، شانہ بشانہ۔ نوازشریف اِن دونوں کی وفاداری کا ذکر ہی نہیں کرتے، برملا اس پر ناز بھی کرتے ہیں۔ سعد کو اعتراف تھا کہ ریلوے کی بحالی اور ترقی کا یہ سفر آسان نہ ہوتا اگر اس میں احسن اقبال کی مدد اور وژن شامل نہ ہوتا۔ اہالیان نارووال ، اپنے شہر سے لاہور تک دو تین نئی گاڑیوں کا مطالبہ کررہے تھے۔ وزیر موصوف کا جواب تھا کہ ریلوے میں بحالی و ترقی کا یہ عمل اس کئے بھی ممکن ہوا کہ یہاں فیصلے سیاسی مصلحتوں اور جماعتی ضرورتوں کے تحت نہیں کئے جاتے۔ یہاں منصوبے خالصتاً پروفیشنل بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ٹریک کی حالت اچھی نہیں، لاہور، نارووال ، سیالکوٹ ، وزیرآباد سیکشن کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی جارہی ہے۔ ہم یہاں 120کلومیٹر کی رفتار چاہتے ہیں جس کے کئے وقت چاہئے لیکن 65کلومیٹر تک تو جلد ہی پہنچ جائیں گے۔ اس وقت یہ پینتیس، چالیس سے زیادہ نہیں۔ اُن کا کہنا تھا،’’لاثانی‘‘ اور ’’فیض احمد فیض ‘‘ میں کوچز کے اضافے کے ساتھ اُن کی حالت بہتر بنانے کی طرف فوری توجہ دی جائے گی۔ اس روٹ پر نئی ٹرین کے اجراء کا فوری وعدہ وہ نہیں کریں گے، البتہ اکبر بگٹی ایکسپریس کا روٹ کوئٹہ/لاہور کو نارووال تک بڑھانے پر ضرور غور کیا جائے گا۔