• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہری ہوا بازی کا مرکز کراچی،فضائی حادثات کی تحقیقات کا مرکز راولپنڈی

کراچی (رپورٹ:طارق ابوالحسن ) ترقی یافتہ ممالک میں فضائی حادثات کی تحقیقات ایک ”آزاد تحقیقاتی ادارہ“ کرتاہے یہی ادارہ تحقیقات مکمل ہونے پر تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع کرتا ہے ۔ پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات سیفٹی انویسٹیگیشن بورڈ (ایس آئی بی) کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والایہ ادارہ اس قدر آزاد نہیں اور اس کے ارکان کی قابلیت بھی سوالیہ ہے ۔ سیفٹی انویسٹیگیشن بورڈ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک شعبہ کے طور پر کام کررہا تھا ۔ 2006 میں ملتان فوکر حادثہ کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حادثات کی آزاد اور غیرجانبددارانہ تحقیقات کیلئے شعبہ سیفٹی انویسٹیگیشن بورڈ یا ایس آئی بی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی سے الگ کیا جائے ۔ بالآخر اگست 2015 میں سیفٹی انویسٹیگیشن بورڈ کو سی اے اے سے الگ کردیا گیا۔شہری ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام انکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔شہری ہوا بازی کا مرکز کراچی ہے ، مگر ایس آئی بی کا دفتر اگست 2015 میں راولپنڈی منتقل کردیاگیا۔بتایا گیا کہ یہ اقدام ایس آئی بی کو آزاد کرنے کیلئے کیا گیا ، کراچی میں ایس آئی بی کا دفتر سی اے اے کی عمارت میں تھا۔ راولپنڈی میں بھی یہ دفتر سی اے اے کی عمارت میں ہی ہے۔ پہلے ایس آئی بی کا سربراہ پاکستان ایئرفورس کا ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسر ہوتا تھا۔اب بھی ایس آئی بی کا سربراہ ایئر فورس کا افسر ہی ہے ۔ آزاد ہونے سے پہلے ایس آئی بی کا سربراہ ڈپوٹیشن یا کونٹریکٹ پر سی اے اے کا ملازم ہوتا تھا اور اب آزاد قرار دینے کے بعد بھی ایس آئی بی کے ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے موجودہ سربراہ ایئر کموڈور منیر بٹ اور رکن گروپ کیپٹن سلطان رندھاوا دونوں کو تنخواہ سی اے اے سے ہی ملتی ہے۔ ایس آئی بی کا بجٹ بھی سی اے اے ہی دیتا ہے۔ تو یہ ادارہ آزاد کیسے ہوا؟۔ امریکا کا نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ فضائی حادثات کی تحقیقات کے بعد رپورٹ بھی خود شائع کرتاہے جبکہ پاکستان میں حکومتی اجازت کے بغیر تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔ اب بات کرتے ہیں ایس آئی بی کے سربراہ کی قابلیت کی ۔ایس آئی بی کے سربراہ عموماً دو برس کے کانٹریکٹ یا ڈپوٹیشن پر آتے ہیں ، ان کے پاس صرف فوجی طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کا تجربہ ہوتا ہے اور بعض کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا۔مسافر بردار طیاروں کا تو بالکل ہی تجربہ نہیں ہوتا تاہم کنٹریکٹ پر آنے والے افسران جب کچھ تجربہ کار ہوتے ہیں تو ان کی مدت ملازمت ختم ہوجاتی ہے، پھر نیا آدمی آجاتا ہے۔مسافر بردار طیارے فوجی طیاروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور حادثات کی وجوہات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کمرشل طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کرنے والے برسوں کا تجربہ رکھتے ہیں ، اور مختلف اقسام کے طیاروں کے ماہرین الگ الگ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات میں حکومتی عمل دخل بہت ہوتا ہے ، تحقیقاتی رپورٹس میں عموماً حادثے کی ذمہ داری پائلٹ پر عائد کردی جاتی ہے جو کہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ ماضی میں پائلٹس کی تنظیم پالپا بھی تحقیقاتی رپورٹس پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے لہٰذا ماہرین کا مطالبہ ہے کہ اے ٹی آر طیارے کے حادثہ کی تحقیقات میں پائلٹس کے نمائندے اور آزاد تحقیقاتی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔
تازہ ترین