مہمانوں کی تعداد اور ’’معیار‘‘ کے لحاظ سے اِسے شہر کی بڑی شادیوں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔ ریاض احمد چوہدری کی صاحبزادی آسیہ ریاض کی اپنی بھی شخصیت اور شناخت ہے۔ احمد بلال محبوب کا ’’پلڈاٹ‘‘ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی ) بیرونِ ملک بھی اپنی کریڈیبلٹی رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے ’’گیلپ پاکستان‘‘ کی طرح پلڈاٹ کے سرویز کو بھی اہلِ فکر ونظر خاص اہمیت دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو بھی ان سروے رپورٹس کو بہت سنجیدگی سے لیتی تھیں۔ ’’یُوتھ پارلیمنٹ‘‘ پلڈاٹ کا منفرد آئیڈیا تھا۔ مختلف شعبہ حیات سے متعلق سینکڑوں نوجوان پارلیمانی سیاست کی تعلیم و تربیت کے عمل سے گزر چکے ہیں۔ یوتھ پارلیمنٹ کے ارکان کی زیادہ سے زیادہ عمر29سال ہے جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے ، پلڈاٹ پارلیمنٹ اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کے لیے پلڈاٹ اپنے خرچ پر پارلیمنٹیرینز کے بیرونِ ملک دوروں کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ دیگر ملکوں کی پارلیمنٹس کے ارکان سے میل ملاقاتوں اور اِن کی کارروائی کے مشاہدے اور مطالعے میں سیکھنے کا خاصا سامان ہوتا ہے۔ اپنے منتخب اِداروں کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ بھی پلڈاٹ کے فرائض کا اہم حصہ ہے۔
جوائنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے پلڈاٹ کے اس سارے کئے دھرے میں آسیہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اِس ہفتے کی سہ پہر یہ اس کے پیا گھر سدھارنے کی تقریب تھی۔ لاہورمیں عسکری ولاز کے وسیع و عریض لان میں مہمانوں کی اس بڑی تعداد میں موجودگی ریاض چوہدری کے علاوہ آسیہ کی پبلک ریلیشننگ کی بھی اعلیٰ مثال تھی۔ ان میں ریٹائرڈ اور سرونگ افسران، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہم شخصیات ، اور اربابِ علم ودانش سبھی کی بھرپور نمائندگی تھی۔ اہلِ سیاست میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نمایاں ترتھی۔ ریاض چوہدری نے ایک عرصہ ملتان میں گزارا تھا۔ اس لحاظ سے ملتان کے قریشی اور گیلانی سمیت تمام اہم سیاسی خانوادوں کے بزرگوں سے ان کا دوستانہ رہا۔ ان خاندانوں کے سیاسی جانشینوں کو بھی اس تعلق کا پاس اور لحاظ ہے۔ یہی احساس شاہ محمود قریشی کو ملتان سے کھینچ لایا تھا۔ گورنر رجوانہ پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن کے باعث تشریف نہ لاسکے۔ انہوں نے ڈھیروں معذرت کے ساتھ بھرپور مبارکباد بھجوادی۔ نارووال کے کرنل(ر) جاوید کاہلوں سے ملاقات فکرونظر کے اختلاف کے باوجود پُرتپاک ہوتی ہے لیکن یہاں اس تپاک کی الگ اہمیت تھی۔ زیادہ دِن نہیں گزرے ، نارووال کے حوالے سے اپنے کالم میں ہم نے 2002کے الیکشن میں احسن اقبال کے ساتھ ہونے والی دھاندلیوں کا ذکر کیا تھا(تب کرنل کاہلوں نارووال کے ڈسٹرکٹ ناظم اور ان کی اہلیہ احسن اقبال کے مقابل قاف لیگ کی اُمیدوار تھیں)۔ پُرجوش مصافحے کے ساتھ کرنل کاہلوں کا کہنا تھا، آپ کا تازہ کالم بھی پڑھا اور پھر ہنستے ہوئے کہا ، لیکن قاری کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ملتان سے جماعتِ اسلامی کے دانشور رہنما سے ملاقات میں لودھراں کے ضمنی انتخاب کا ذکر ہوا۔ ضمنی انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات، جماعتِ اسلامی کی پالیسی دلچسپ ہے جس کے مطابق ’’مقامی جماعتیں‘‘ اپنے اپنے ’’زمینی حقائق‘‘ کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ بعض جگہ تو یہ دلچسپ مناظر بھی تھے کہ ایک یونین کونسل میں جماعتِ اسلامی ، تحریکِ انصاف کی اتحادی تھی، تو دوسری یونین کونسل میں، مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اس کا اتحاد تھا۔یونیورسٹی لائف میں جماعت سے والہانہ ہمدردی رکھنے والے ہمارے دانشور دوست کا اس صورتِ حال پر تبصرہ بڑا دلچسپ تھا۔ ’’ایک یونین کونسل میں مسلم لیگ(ن) طاغوت ہے اور تحریکِ انصاف حق پر، جبکہ دوسری یونین کونسل میں تحریکِ انصاف طاغوت ہے تو مسلم لیگ(ن) برسرِ حق‘‘۔
چند دِن ہوئے ، لودھراں کے ضمنی انتخاب میں، وہاں کی جماعت نے (باقاعدہ پریس کانفرنس میں) مسلم لیگ(ن) کے صدیق بلوچ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ظاہر ہے، یہ فیصلہ جماعت کی طے شدہ پالیسی کے تحت تھا کہ مقامی جماعت اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ ہفتے کی اس سہ پہر ٹی وی چینلز پر ٹِکر چل رہے تھے۔ چوہدری محمد سرور اور میاں محمود الرشید نے لاہور میں جناب لیاقت بلوچ اور میاں مقصود احمد سے ملاقات کی تھی جس کے بعد جماعت کے مرکزی اور صوبائی رہنما نے لودھراں کے ضمنی انتخاب میں تحریکِ انصاف کے جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔ ملتان جماعت کے دانشور رہنما کے لیے یہ خبر قدرے حیران کن تھی لیکن اس کا کہنا تھا، لودھراں میں جماعت کے ورکر اور ووٹر مقامی جماعت کے فیصلے پر ہی عملد رآمدکریں گے۔ (نظم و ضبط کے حوالے سے منفرد شہرت کی حامل جماعت کے لیے اس صورتِ حال کو کیا نام دیاجائے؟ )، دانشور کا مزید کہنا تھا، اب قومی و صوبائی حلقوں میں جماعت کے ووٹر رہ ہی کتنے گئے ہیں؟ لودھراں میں یہ زیادہ سے زیادہ دو،ڈھائی ہزار ہوں گے۔ ہمارا کہنا تھاکہ مقابلہ سخت ہو تو دو، ڈھائی ہزار ووٹ بھی فیصلہ کُن ہوتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات، جماعتِ اسلامی کی انتخابی پوزیشن کا ایک اور آئینہ تھے۔ کراچی میں جہاں جماعتِ اسلامی تین بڑی اسٹیک ہولڈرز میں شمار ہوتی تھی،حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج اِسے بہت نیچے لے گئے۔ یہاں پی ٹی آئی کے ساتھ اس کا اتحاد تھا۔ عمران خان اور جناب سراج الحق نے یہاں زبردست ریلی بھی نکالی (انتخابی قواعد وضوابط کی اس خلاف ورزی پر سراج الحق صاحب الیکشن کمیشن سے غیر مشروط معذرت بھی کرچکے۔) عمران خان نے یہاں دو دِن بھرپور مہم چلائی۔ اس کے باوجود، بلدیاتی انتخابات میں دونوں کی نشستیں مل کر بھی مسلم لیگ (ن) سے کم رہیں جس نے کسی ہائی پروفائل مہم کے بغیر بھی نشستوں کے لحاظ سے یہاں دوسری پوزیشن حاصل کر لی تھی۔ انتخابات کے بعد یہ منظر بھی دلچسپ تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے خیال میں اس کے لبرل ووٹر نے جماعت کے ساتھ اتحاد کو پسند نہیں کیا تھا جبکہ جماعت کے بقول مذہبی رُجحان کے حامل اس کے ووٹر کے لیے پی ٹی آئی جیسی آزاد خیال پارٹی ناقابلِ قبول تھی۔ الیکشن کے بعد تحریکِ انصاف کے ایک سروے کی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آئی جس کے مطابق اس کے 40% ورکرز اور ووٹرز نے جماعت کے ساتھ اتحاد کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دیاتھا، جبکہ اتنی ہی تعداد میں(40%) ووٹر اور ورکر وہ تھے جن کی رائے میں پی ٹی آئی کو کسی بھی مذہبی جماعت سے فاصلے پر رہنا چاہیے۔ اُدھر سلیم صافی کے ’’جرگہ‘‘ میں امیرِ جماعت بلدیاتی انتخابات میں جماعت کی کارکردگی پر مطمئن تھے۔ اس کے لیے امیرِ محترم، خیبر پختونخوا میں چار ضلعی اور درجن بھر نچلی سطحوں پر جماعت کی حکومتوں کے امکان کا حوالہ دے رہے تھے۔ سلیم صافی کے سوال پر کہ جماعتِ اسلامی پاکستان ، جماعتِ اسلامی مالاکنڈ ڈویژن بن کر کیوں رہ گئی؟ سراج الحق نے عوام کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے کھلے دِل سے اعتراف کیا کہ ہمارے ورکر عام آدمی تک جماعت کا پیغام پہنچانے اور اسے اس پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے۔ کراچی کے حوالے سے ان کا تجزیہ گہرے غوروفکر کا متقاضی ہے۔ ان کے خیال میں، آپریشن مس ہینڈل ہوا، اس میں حکمت سے کام نہ لیا گیا، ایم کیوایم اپنی مظلومیت کا تاثر اُبھارنے میں کامیاب رہی اور مہاجر ووٹ ایک بار پھر ایم کیوا یم کی طرف چلا گیا۔