وہ جو خود بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا، اپنی شہادت سے قبل حرماں نصیب قوم کے دکھوں کا ترجماں نوحہ لکھ گیا۔ آخری لائنوں میں کہتا ہے …’’کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں /یہ بجھتا ہوا دل /دھڑکتا تو ہے /مسکراتا نہیں /دسمبر مجھے راس آتا نہیں ‘‘۔ اس نے یوں بھی ماتم کیا:
محسنؔ ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
ویسے تو یہاں سارا سال ہی یہ چلن ہے کہ ’’ ہنجو اکھیاں دے ویہڑے وچ پوندے نیں دھمالاں‘‘ لیکن اس یخ بستہ مہینے نے تو سدا اس سر زمین کو کربلا ہی بنائے رکھا اور ہر دفعہ ہماری آنکھیں دریا کرنے کا کچھ منفرد ہی ساماں کیاہے ۔ ہمارے لاکھوں ہم وطنوںکا خون بہا کر یہ ملک دو ٹکڑے کرنے سے لیکر پی آئی اے کے چترال سے اسلام آباد آنیوالے طیارے کے ٹکڑے کرنے تک اور بے نظیر بھٹو اور پروین شاکر جیسی امن کی فاختائیں ہم سے جدا کرنے سے لے کر آرمی پبلک اسکول پشاور کے ننھے فرشتے ہم سے چھیننے تک، ظالم دسمبر نے ہمارے سینوں پر جی بھر کے گھائو لگائے ہیں۔
سانحہ پشاور کی دہشت کے خونچاں نقوش تو ہمارے دلوں سے کبھی نہ مٹ پائینگے ، جب ظالمو ں نے معصوموں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی۔ بے رحم درندے پھولو ں پر بارود کی صورت آتش و دہن کی بارش برساتے رہے اور ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو ان کی معلمات سمیت شہید کیا۔ صد افسوس ! ہم بے بس آج تک دسمبر کی زخم خورد ہ مائوں کے دکھ کا مداوا نہ کر سکے ۔ کوئی مداوا ممکن نہ سہی ، ہم بے حس تو ان کے جگر گوشوں کے قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک نہ پہنچا سکے ۔
ہوائے عصر ! کوئی تو تعزیت کر ہم سے کہ سولہ دسمبر پھر لوٹ آیا ہے ۔ زخم ہرے ہونے لگے ہیں، شام غریباں برپا ہونے لگی ہے، ظلم کا شکار رفتگان کے چہروں کے البم کھلنے لگے ہیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں ، اشکوں کے موتی رُل رہے ہیں ،تڑپنے کا موسم آ گیا ہے، انگاروں پہ لوٹنے کے دن آ گئے ہیں ، ستم ڈھانے ستم گر آگیا ہے ، ماتم کا مہینہ آ گیا ہے:
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اس کے راستے کو کھلا کررہے ہیں ہم
ہم دسمبر کا ہر زخم بھول گئے مگر یہ زہر میں بجھا تیر ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بخدایہ جب تک ہمارے سینوںمیں پیوست رہے گا ہم بے گناہ لہو کا حساب مانگتے رہیں گے ۔ غمزدہ والدین اور دردِ دل رکھنے والے اس سانحے پر جوڈیشل کمیشن کا پوچھتے رہیں گے اور صوبائی حکومت کی انکوائری رپورٹ مانگتے رہیں گے ۔ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کی دہائی دیتے رہیں گے اور انتہا پسندی کی نرسریوں کے خلاف کارروائی کرنے کا واویلا کرتے رہیں گے کہ ’’ سنپولیوں سے بھرا جا چکا ہے زہرِ حرم‘‘ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے آپریشن کی حمایت جاری رہے گی مگر اس ملک کے شہری’’ اچھے اور برے ‘‘ کی تفریق ختم کرنے کے مطالبات بھی کرتے رہیں گے ، جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا ساماں کررہے ہیں۔
اس وقت تک ، جب تک ظالموں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا اور اس وقت تک، جب تک ایک روادار اور وسیع النظر سماج کے قیام کی طرف قدم نہیں بڑھایا جاتا،بے گناہوں کا خون ہمارا گریباں نہیں چھوڑے گا۔وہ نوکِ سناں پر بھی بولتا رہے گا، چیختا رہے گااور ہمیں جھنجھوڑتا رہے گا۔ آخر میں سانحہ پشاور کے حوالے سے برادرم ابرار ندیم کی ایک دل سوز نظم:
دعائیں بین کرتی ہیں
مرے مالک، مرے مولا
یہ کیا منظر ہے جو آنکھوں نے دیکھا ہے
مگر دیکھا نہیں جاتا
یہ اِک لمحہ قیامت کا
کئی صدیوں پہ بھاری ہے
فضا میں ہر طرف جیسے سکوتِ مرگ طاری ہے
عجب اک ہو کا عالم ہے
رگوں میں خون نہیں شاید مسلسل درد جاری ہے
مگر بے بسی اپنی !
بہت رونے کی خواہش ہے مگر رویا نہیں جاتا
کسی نے دل کے آنگن میں
مسل کر میرے خوابوں کو
مرے دل کے نہاں خانوں میں ایسا خوف بویا ہے
تھکن سے چور ہیں آنکھیں
مگر سویا نہیں جاتا
خزاں کے سرد موسم میں
بہت تاریک راتوں میں
مرے اجڑے چمن میں
چار سو پھولوں کا ماتم ہے
مرے چاروں طرف جیسے
کلیجہ چیرتی ٹھنڈی ہوائیں بین کرتی ہیں
لئے ہاتھوں میں اپنے پھول سی نوخیز کلیوں کو
کفن دے کر پیشانی چومتی بے حال مائیں بین کرتی ہیں
فلک خاموش ہے لیکن دعائیں بین کرتی ہیں
.