کابل سے دہلی جاتے ہوئے وزیراعظم مودی کا لاہور میں ’’سرپرائز‘‘ اسٹاپ اوور، اور وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے بھرپور پذیرائی پر، حُب الوطنی کے اجارہ دار ہمارے کچھ دوستوں کی طرف سے اندیشہ ہائے دور دراز کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سینئر کالم نگار (اور ٹی وی کے ممتاز تجزیہ کار) کو خطے میں امن کی ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں، وہ مودی کو صمیم قلب سے خوش آمدید بھی کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے قومی مفادات کے حوالے سے اندیشوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ ان کے بقول بھارت کے بارے میں میاں محمد نوازشریف کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔ ان کے اس فقرے پر ہم نے بھارت کے بارے میں میاں محمد نوازشریف کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالی، تو نظرآیا کہ خطے میں امن کی خواہش(اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار) اپنی جگہ لیکن یہ خواہش کبھی پاکستان کے قومی مفادات پر غالب نہیں آئی۔ اس حوالے سے کسی بھی آزمائش میں وہ ہمیشہ پورے اُترے ۔ یہی آزمائش مئی 1998میں بھی درپیش تھی جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم کردیا تھا۔ بی جے پی میں ’’سافٹ فیس‘‘ رکھنے والے واجپائی کی زبان ہی نہیں، دہن بھی بگڑ گیا تھا۔ وہ کھلم کھلا دھمکیوں پر اُترآیا تھا، اس کا کہنا تھا، پاکستان کشمیر کو بھول جائے کہ اب بھارت کے پاس بڑا بم آگیا ہے۔
ادھر امریکہ سمیت ایک دُنیا پاکستان کو جوابی دھماکوں سے روکنے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی۔ امریکیوں نے اس کے لئے کیا کیا جتن کئے ۔ سخت ترین آزمائش کی اس گھڑی میں وزیراعظم نوازشریف کی قسمت میں سرخروئی لکھی تھی۔ بھارت کے بارے میں نوازشریف کا ٹریک ریکارڈ ایک طویل مقالے کا موضوع ہے، ایک اخباری کالم جس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تیسری وزارتِ عظمیٰ کے اس پہلے نصف میں پاک، بھارت تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم کا رویہ کیارہا؟ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک کورایشو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نوازشریف کے گزشتہ دونوں ادوار میں بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر رہا۔ یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے ان کا کوئی بھی خطاب کشمیر کے بغیر نہیں رہاتھا۔ 1997میں دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد جنرل اسمبلی سے یہ ان کا پہلا خطاب تھا، جس میں انہوں نے جہاں طاقتور ملکوں سے کہا کہ وہ کمزور اقوام کے خلاف من مانی نہ کریں، وہاں ہندوستان کی طرف سے برصغیر میں امن کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اِن کا کہنا تھا ، ہندوستان نے پاکستانی سرحد کے قریب میزائل نصب کردیئے ہیں جس سے ہماری سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ یہاں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کہہ رہے تھے، مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کئے بغیر خطے میں کشیدگی کم نہیں ہوسکتی۔ اُسی روز صدر کلنٹن سے ملاقات میں اُنہوں نے امریکی صدر پر واضح کیا کہ پاکستان، ہندوستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اگلے سال(1998میں) دُنیا بھر سے آئے لیڈروں سے اپنے خطاب میں وہ کہہ رہے تھے ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازع کی اصل وجہ کشمیر ہے۔ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق ِ خودارادیت دِلانے کے لئے ہندوستان پر دباؤ ڈالے، ورنہ اقوامِ متحدہ سے دُنیا کا اعتماد اُٹھ جائے گا۔ جبکہ اسی روز نوازشریف سے ملاقات میں صدر کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کردار ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔فروری 1999میں واجپائی کی لاہور یاترا پر اعلان لاہور میں مسئلہ جموں و کشمیر سمیت تمام معاملات کے حل کے لئے کوششیں تیز تر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اخبار نویسوں سے گفتگو میں ہندوستانی وزیرخارجہ جسونت سنگھ کا کہنا تھا، مذاکرات میں مسئلہ کشمیر شامل تھا۔ اسی دور میں ہندوستان کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے دُنیا کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی سنگینی کی طرف متوجہ کیا۔ نہ صرف جنرل اسمبلی کی سالانہ رپورٹس میں کشمیر، ’’فلیش پوائنٹ‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگا بلکہ دولتِ مشترکہ ، یورپی یونین اور ڈی ایٹ سمیت سبھی عالمی اِداروں کی طرف سے دو ایٹمی ملکوں میں اس دیرینہ تنازع کے حل پر زور دیا جانے لگا، ایک ایسا تنازع جو برصغیر سے باہر عالمی امن کے لئے بھی سنگین خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔
نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ، تو ستمبر 2013 میں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اُنہوں نے پھر کشمیر کو موضوع بنایا ۔ اِنہیں اقوامِ متحدہ کو باور کرانے میں کوئی عارنہ تھی کہ اُس نے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل(اور اہل کشمیر کے حق ِ خودارادیت ) کے لئے وہ کردار ادا نہیں کیا، جو اُسے کرنا چاہئے تھا۔ عالمی ضمیر کو آواز دیتے ہوئے اِن کا کہنا تھا، اہل ِ کشمیر کے مصائب و آلام کو عالمی سیاست کی وجہ سے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ تب من موہن سنگھ ہندوستان کے وزیراعظم تھے اور وہ اپنے پاکستانی ہم منصب کی اس تقریر سے اتنے بدمزہ ہوئے کہ صدر اُوباما سے اس کی شکایت کئے بغیر نہ رہے۔ اس پر نوازشریف نے ہندوستانی صحافی برکھادت سے گفتگو میں، من موہن سنگھ پر’’ لگائی بجھائی کرنے والی عورت‘‘ کی پھبتی کسی(جسے حامد میر نے ’’جیو‘‘ کی بریکنگ نیوز بنادیا)۔ اس پرمن موہن سنگھ کی بدمزگی اور بڑھ گئی تھی، یہاں تک کہ اگلے روز دونوں وزراء اعظم کی ناشتے پر ہونے والی ملاقات منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن یہاں بھی تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔
عالمی مبصرین کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی وزیراعظم نے اس شدت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ اگلے ماہ دورۂ امریکہ میں صدر اُوباما سے ملاقات میں، وزیرنوازشریف کا میزبان سے کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے ’’کورایشو‘‘ سمیت پاک بھارت تنازعات کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ 2014میں نریندر مودی ہندوستان کے وزیراعظم تھے، نوازشریف نے اب عالمی برادری کے سامنے کشمیری خواتین کی مظلومیت کا بھی ذکرکیا۔ جنرل اسمبلی سے اپنے تازہ خطاب میں اُنہوں نے کشمیر کو پھر موضوع بنایا اور امن کے لئے چار نکاتی فارمولا بھی پیش کردیا۔ اس بار وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں کشمیر کے ساتھ فلسطین کا ذکر بھی کیا(اِس سال فلسطین کا پرچم بھی دیگر ممالک کے پرچموں کے ساتھ موجود تھا)۔ اُن کا کہنا تھا، فلسطین کا المیہ سنگین تر ہوگیاہے۔ ’’فلسطین اور اسرائیل ، دو الگ الگ ریاستوں‘‘ والا امن فارمولہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی نذر ہوچکا۔ وہ کہہ رہے تھے، ملٹری ایکشن اپنی جگہ لیکن دہشت گردوں کے بیانئے(Narrative) کو کاؤنٹر کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لئے دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
نوازشریف کے ٹریک ریکارڈ کے حوالے سے ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ اپنی تقریب ِ حلف برداری میں میاں صاحب نے من موہن سنگھ کو مدعو کیا تو اُنہوں نے ٹکا سا جواب دے دیا(نریندر مودی نے دعوت دی تو میاں صاحب سر کے بل گئے)۔
اس فسانے کی حقیقت اتنی ہے کہ مئی 2013کا الیکشن جیتنے کے بعد میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بننے جارہے تھے، جاتی عمرا میں اخبار نویسوں کے ساتھ ایک نشست میں پاک بھارت تعلقات کی بات چھڑی تو میاں صاحب کے گزشتہ دور میں(فروری 1999) واجپائی کی لاہور آمد سے شروع ہونے والے نئے امن عمل کا ذکر بھی ہوا (جو کارگل کے مس ایڈونچر کی نذر ہوگیا تھا، آخر کار 12اکتوبر کو میاں صاحب بھی رُخصت ہوگئے) اخبار نویس کا سوال تھا، کیا اسی امن عمل کے تسلسل میں اب ایک بار پھر بھارتی وزیراعظم (من موہن سنگھ) کو دورۂ پاکستان کی دعوت دیں گے؟ میاں صاحب کا جواب اثبات میں تھا۔ جِسے یار لوگوں نے حلف ِ وفاداری کی تقریب کا دعوت نامہ بنادیا۔ باقی رہی، مودی کی حلف ِ وفاداری کی تقریب میں شرکت، تو اس کے لئے سارک کے سبھی سربراہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔وزیراعظم نے منہ بسور کر گھر بیٹھ رہنے کی بجائے، سارک برادری کے ساتھ موجود ہونے کا بھرپور تاثر دیا۔