وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کل خود وزیراعظم کے پاس گیا اور سپریم کورٹ کے سانحہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر اپنے استعفے کی پیش کش کی جس پر وزیراعظم نے میرے مستعفی ہونے کے بات تسلیم نہیں کی،سانحہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کو ہر فورم پر چیلنج کروں گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ میں آج جارحانہ موڈ میں ہوں، مجھ پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے گئے جبکہ میرا مؤقف بھی نہیں لیا گیا، سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی، رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے تھے، ہمارا مؤقف آئے بغیر یک طرفہ رپورٹ کیسے سامنے آئی،مجھے پریس کانفرنس سے منع کیا گیا تو میں نے استعفیٰ دے کر پریس کانفرنس کی بات کی، اس پر بات آگے بڑھی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے کمیشن نے مجھے جو سوالات بھیجے اس میں سانحہ کوئٹہ کا تو ذکر ہی نہیں، سانحہ کوئٹہ کے کمیشن کی طرف سے مجھ سے پانچ سوال پوچھے گئے، پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ اہلسنت والجماعت کے مولانا لدھیانوی کی زیر قیادت وفد سے کیوں ملے؟ جس کے جواب میں میرا کہنا تھا کہ میں اہلسنت والجماعت کے وفد سے نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ جلسوں کی جازت دینے کے سوال پر میرا جواب تھا کہ جلسوں کی اجازت دینا میرا نہیں ضلعی انتظامیہ کا اختیار ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ تیسرا سوال یہ تھا کہ ثبوت ملا ہے کہ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا کبھی اجلاس نہیں ہوا، کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا آخری اجلاس دسمبر 2014ء میں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چوتھا سوال تھا کہ یہ ثابت ہوا کہ بورڈ آف گورنرز کا اجلاس کبھی نہیں ہوا کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ سوال وزیراعظم آفس سے متعلق ہے، پانچواں سوال پوچا گیا کہ وزارت داخلہ میں اسپیشل سیکریٹری کیوں تعینات ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ تعیناتی قانون کے مطابق ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ پہلے سوال کے میرے جواب پر جواب آیا کہ اخباری رپورٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے اہل سنت والجماعت کے وفد سے ملاقات کی، میں نے جواب میں بتایا کہ ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ وزیر داخلہ نے اہلسنت والجماعت کے وفد سے ملاقات کی۔
انہوں نے بتایا کہ کمیشن نے جواب میں ایک تصویر بھیجی، جو جہاد کونسل کے اکابرین سے ملاقات کی تصویر تھی، میں نے اس سوال کا جواب دیا کہ اس ثبوت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وزیر داخلہ نے اہلسنت والجماعت کے وفد سے ملاقات کی، متعلقہ تاریخ پر میں نے دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی تھی کیونکہ کئی دینی اور سیاسی جماعتیں دفاع پاکستان کونسل کا حصہ ہیں اور یہی گروپ مجھ سے ملنے آیا تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کوئی کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو ، اس کی شہریت منسوخ نہیں کرسکتے ، میرے آنے سے پہلے علامہ ساجد نقوی بھی شیڈول فورتھ میں تھے ، نیشنل ایکشن پلان کے بعد گزشتہ سال اور رواں سال دھماکوں میں کمی آئی، میں نے پیسے کو ذریعہ سیاست نہیں بنایا،کوئی ایل این جی کوٹہ، فیکٹری، آف شور کمپنی نہیں بنائی،کیسز مجھے ورثے میں ملے ہیں، یہ کہتے ہیں انہیں میں روک دوں، میں نہیں روکوں گا ۔
میرے لیے وزارت نہیں عزت اہم ہے ، جن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں انہیں یقین دلاتاہوں ہر چیز کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کروں گا،اس عہدے پر عزت سے ہی رہوں گا، عزت کےبغیر عہدے لعنت سے کم نہیں،عمران خان یا بچہ پارٹی کوئی بھی ہو، میں بحث کے لیے اور نیشنل ایکشن پلان کا ریکارڈ سامنے لانے کو تیار ہوں، ایک بچہ جو اس کے منہ میں آتا ہے اس سے کہلواتے ہیں ، بنیادی مقصد تضحیک کرانا ہوتا ہے، کاش اس بچے کو کوئی سمجھائے کہ پاناما لیکس میں اس کی والدہ کا نام بھی شامل ہے ، ماڈل ایان علی کا کیس وزرات داخلہ کا نہیں، وزارت خزانہ کا ہے، یہ معاملہ صرف پانچ لاکھ ڈالرز کا نہیں،اس میں سیاسی گٹھ جوڑ بھی شامل ہے۔