سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران خان اور پیپلز پارٹی کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عمران خان اور بچہ پارٹی بتائے کہ انہوں نے اپنے صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا مؤقف تھا کہ کمیشن کی رپورٹ یکطرفہ ہے ۔کمیشن کی جانب سے انہیں ایک مراسلہ میں پانچ سوال بھیجے گئے تھے جن کا انہوں نے جواب دے دیا تھا اور کہا تھا کہ دفاع پاکستان کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی جس میں مولانا احمد لدھیانوی بھی شامل تھے۔ اہلسنت و الجماعت کے وفد سے نہ ملے اور نہ کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں وہ ہرایک الزام کا جواب دیں گے۔ سپریم کورٹ نے8اگست کو کوئٹہ میں دہشت گردی کے سانحہ کی انکوائری کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس کی رپورٹ میں بعض کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور وزارت داخلہ کے بارے میں ریمارکس دئیے گئے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وزیر داخلہ اور ان کی وزارت کو وضاحت کرنے کا موقع دیا جاتا لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے اپنی توپوں کے دھانے وزیر داخلہ کی جانب موڑ دئیے۔ پیپلز پارٹی تو ادھار کھائے بیٹھی ہے، پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر ادخلہ کو ناکام قرار دے کر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ اب انہیں موقع ہاتھ آگیا تو بلاول بھٹو سمیت چودھری اعتزاز احسن، سینیٹر سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو نے وزیر داخلہ پر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے کا الزام عائد کردیا بلکہ پھر استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ترجمان چودھری فواد نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا ہے اور اب جب چودھری نثارنے اپنا موقف پیش کردیا ہے تو پریس کانفرنس پر تنقید کرنے کے بجائے وہ ان کے موقف کو بھی سنیں۔جمہوریت میں صرف مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ جس پر الزام لگایا جائے اس کا موقف بھی سنا جاتا ہے یکطرفہ فیصلہ جمہوریت کے منافی ہے!!
.