وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پیپلزپارٹی کے درمیان ’’جنگ‘‘ بڑی پرانی ہے۔ جب وہ پی پی پی کی گزشتہ حکومت کے دوران قائد حزب اختلاف تھے تو بھی اکثر وبیشتر بڑی سخت جھڑپیں ہوتی تھیں۔ اس لڑائی میں وزیراعظم نوازشریف عام طور پر خاموش رہتے ہیں اور آصف علی زرداری بھی کم ہی بولتے ہیں مگر بلاول اس میں ڈائریکٹ حصہ بنتے رہتے ہیں۔ پی پی پی کے اہم رہنما ہمیشہ وزیراعظم پر زور دیتے ہیں کہ وہ چوہدری نثار کو ان پر حملوں سے روکیں مگر ان کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ وزیر داخلہ تو وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے انہیں اپنے مشن سے باز رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے حکومت اور پی پی پی کے درمیان تعلقات بھی کئی بار کافی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ کئی بار پی پی پی نے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وزیراعظم چوہدری نثار سے جان چھڑا لیں مگر یہ ان کی بھول ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ وزیر داخلہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف نوازشریف اور شہبازشریف بلکہ نون لیگ کے بہت سے دوسرے رہنما بھی انہیں کافی پسند کرتے ہیں اور ان کی سیاسی دانشمندی کے قائل ہیں۔ ویسے بھی چوہدری نثار اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ کوئی دوسرا ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے وہ تو وہی کرتے ہیں جو ان کے دل، دماغ اور ضمیر کی آواز ہے۔
آخر پی پی پی چوہدری نثار کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہے اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پی پی پی کی گزشتہ حکومت کا ٹریک ریکارڈ کرپشن کے حوالے سے اور دوسرے اہم معاملات کے بارے میں کیا رہا۔ اس کی بدترین گورننس ہی چوہدری نثار کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ ہے جو پی پی پی اور ان کے درمیان لڑائی کی وجہ بنتا ہے۔ ایک طرف پی پی پی کی بدترین شہرت ہے اور دوسری طرف چوہدری نثار کی دیانتداری ہے۔ وزیر داخلہ کا کوئی سخت ترین دشمن بھی ان کی ایمانداری پر انگلی نہیں اٹھا سکتا حالانکہ وہ بڑی اہم منسٹریوں کے انچارج رہے ہیں۔ وہ ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا ماضی اور حال بے داغ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کی ریپوٹیشن رکھنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ چاہے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ میں ہونے والی دہشتگردی کے بارے میں رپورٹ ہو، رینجرز کے کراچی میں اختیارات کا معاملہ ہو یا پی پی پی کے رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات یا داستانیں ہوں پی پی پی ہر وقت اسی ٹوہ میں لگی رہتی ہے کہ کس طرح چوہدری نثار پر تمام قسم کے الزامات ڈال دئیے جائیں اور انہیں دبائو میں لایا جائے۔ اس لڑائی میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ پہل چوہدری نثار نے کی ہو بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا جواب ہی دیتے ہیں اور ایسا کھرا اور کڑا جواب کہ جو مخالف کو مزید طیش دلا دیتا ہے حالانکہ ان کی باتیں کڑوا سچ ہوتی ہیں جس کو سننے کی ہمت ان کے کسی مخالف میں بھی ہونا مشکل ہے۔ اس سے قبل پی پی پی کے اہم رہنما اعتزاز احسن بھی کئی بار چوہدری نثار سے الجھ چکے ہیں۔
اب تک نہ صرف پی پی پی بلکہ حکومت اور ہر کسی کو یہ اندازہ بخوبی ہو چکا ہے کہ جب بھی چوہدری نثار پر کوئی وار ہوگا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اس کا بھرپور جواب نہ دیں۔ وزیر داخلہ سمجھدار اور عقل مند ضرور ہیں اور اپنی بات بھی بڑے سلیقے سے دبنگ انداز میں کرتے ہیں مگر ہیں وہ بڑے غصیلے اور جلد ناراض ہونے والے۔ ان کے مزاج کو کسی نے یہ کہہ کر کہ ’’ہینڈل ود کیئر‘‘ صحیح طور پر بیان کیاہے۔ بعض اوقات وہ اپنی بات بہت لمبی کر دیتے ہیں جو کہ چند الفاظ میں ہی کہی جاسکتی ہے مگر یہ ان کا اپنا انداز ہے جس کو وہ بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ پی پی پی سمجھتی ہے کہ وزیر داخلہ ہی ان تمام کرپشن کیسزجو کہ اس کے بہت سے لیڈروں خصوصاً ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف بنے ہوئے ہیں کے ذمہ دار ہیں جبکہ اس میں وزیراعظم کا زیادہ کردار نہیں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چوہدری نثار ہی یہ مقدمات ختم نہیں ہونے دے رہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ وزیر داخلہ کے ماتحت جو بھی ادارے خصوصاً ایف آئی اے ہیں بلاخوف وخطر اپنا کام کر رہے ہیں اور انہیں یہ ڈائریکشن ہے کہ وہ کسی کی مداخلت کو خاطر میں نہ لائیں۔ چوہدری نثار اس بات کی مخالفت کرتے رہے ہیں کہ کرپشن کیسز پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کیا جائے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جس نے بھی قومی دولت لوٹی ہے اس کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لانا چاہئے۔
آخر میں سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کے کچھ محسن کش اور خودکش حملوں کے بارے میں۔ یہ صاحب بیچارے دربدر ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگ رہے ہیں مگر اس ڈر سے پاکستان نہیں آرہے کہ انہیں مختلف فوجداری مقدمات جن میں وہ مطلوب ہیں کی وجہ سے گرفتار کرلیا جائے گا۔ ہر فوجی حکمران کی طرح وہ بھی بقول ’’طوطوں‘‘ کے اپنے دور میں عوام میں مقبول ترین تھے اور کوئی بھی سیاستدان اس مقبولیت میں ان کے قریب نہیںپھٹکتا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ ملک میں مشرف کا نام لیوا کوئی نہیں ہے اور ان کی ’’عوامی مقبولیت‘‘ صفر ہے یہی حالت انہیں کوئی نہ کوئی ایسی بات کہنے پر مجبور کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی طرح خبروں میں رہیں۔ ان میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ راحیل شریف کے آرمی چیف ہوتے ہوئے یہ بات کرتے کہ آرمی چیف نے ان کے مقدمات کے بارے میں عدالتوں کو حکومت کے دبائو سے نکالا۔ یقیناً اگر وہ ایسا کہتے تو اس وقت کے آرمی چیف ناراض ہوتے لہذا انہوں نے بہتر سمجھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات کی جائے۔ اس سے راحیل شریف کی سبکی ہوئی ہے مگر وہ اس بات کا جواب نہیں دینا چاہتے اور خاموشی سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 1999ء میں مشرف نے اپنے محسن (نوازشریف) پر حملہ کیا تھا جنہوں نے کئی جنرلوں کو بائی پاس کر کے انہیں آرمی چیف بنایا تھا اور اب انہوں نے راحیل شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دوسری بات جو مشرف نے کہی ہے اس کا تعلق بھی نوازشریف سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں انہیں کہا تھا کہ دو میجر جنرلوں کے خلاف ایکشن لیں مگر انہوں نے بغیر ثبوت کے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی وزیراعظم آفس تردید کر چکا ہے۔ مشرف کو یہ ’’راز‘‘ افشا کرنے کا خیال تقریباً دو دہائیوں کے بعد آیا ہے۔ ان کے اور وزیر اعظم کے درمیان جھگڑے کی اصل وجہ یہ معاملہ نہیں تھا۔ انہوں نے اکتوبر1999ء میں مارشل لاء اپنی نوکری بچانے کیلئے لگایا تھا۔ اگر وہ وزیراعظم کا فیصلہ مانتے تو گھر چلے جاتے۔ مشرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے مختلف ڈرامے کررہے ہیں مگر ان کی وجہ سے انہیں سیاست میں کچھ نہیں ملے گا۔ ہر آمر کی طرح انہیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا دور اس دن ہی اختتام پذیر ہوگیا تھا جب وہ حکومت سے فارغ کر دیئے گئے تھے۔
.