اسلام آباد( طاہر خلیل)27 دسمبر کی تاریخ جہاں اہل پاکستان کو ایک تکلیف دہ سانحے کی یاد تازہ کرادیتی ہے وہیں مجموعی قومی غم و غصے کو برانگیختہ بھی کردیتی ہے جو پچھلے9برسوں میں اس جواب کے متلاشی رہے ہیں کہ قاتلان بے نظیر کا کیا ہوا؟ محترمہ کی شخصیت کو9 سالوں کی نہ پاٹی جاسکنے والی خلیج کے پاس سے دیکھئے تو بے اختیار پروین شاکر کا شعر یاد آتا ہے، وہ روز و شب بھی کہ جن سے شکائتیں تھی بہت۔۔۔اب اتنی دور سے دیکھیں تو خوشنما ٹہرے، محترمہ کے ہم عصر کے طور پر ان کی طرز حکومت، انداز سیاست اور نقطہ نظر کو دیکھنے، پرکھنے،اختلاف کرنے اور تنقید کرنے والے تجربے کی اس کسوٹی کی بنیاد پر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں رکھتےکہ محترمہ سیاست کو وقت کے جس زینے کے ذریعے اوپر لے گئی تھیں ان کی ناگہانی نے محترمہ کی انگلی پکڑ کر اوپر چڑھنے والی پاکستانی سیاست کو کئی سیڑھیاں نیچے دھکیل دیا ہے ،دھرنوں، افواہوں اور جھوٹ میں آلودہ ہوجانے والی موجودہ پاکستانی سیاست گویا محترمہ کی رحلت کے بعد اپنی سمت ہی کھوئی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ کہنا کوئی دعویٰ نہیں ہوگا کہ محترمہ کے بعد پاکستان کی سیاست نظریے سے خالی ہوگئی ہے۔ رابعہ نہاں نے کہا تھا ،پھر یوں ہوا کہ شہر کا نقشہ پلٹ گیا۔۔۔ جو پیٹر سر پہ سایہ فگن تھا وہ کٹ گیا،بونوں نے قد نکال لئے آسمان تک۔۔۔ انسانی اپنے خول کے اندر سمٹ گیا۔پاکستان میں ترقی پسند، استعمار مخالف اور عوام دوست سیاسی نظریات کی قیمت پر مصلحت کوشی، مفاد پرستی اور یوٹرن کی سیاست کو دوام بخشا گیا اس لئے دیکھنا تو یہ ہے کہ آخری فتح کس کے ہاتھ رہی؟ کیونکہ جن کے داغوں پہ خون کا نشان ہے ان تک قانون کا ہاتھ پہنچتا نہیں اور جنہیں صف قاتلاں میں ہونا چاہیے وہی فرشِ ماتم پہ بیٹھے افسوس کررہے ہیں۔یہ بھی کیا ستم ہے کہ چار حکومتیں بدل گئیں،9 برس گزر گئے 8 جج بدلے،6چالان اور100 سے زائد پیشیاں بھگت گئیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل آج بھی ایک پراسرار کہانی ہے حالانکہ محترمہ کا قتل اتنا پراسرار بھی نہیں تھا کہ اس کا سراغ نہ لگایا جاسکے جبکہ یہ کام ہفتوں مہینوں میں مکمل ہوسکتا تھا، چالان کا ایک ایک صفحہ سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہر انوسٹی گیشن افسر کے پاس آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ، انکشافات سے بھرپور کہانیاں موجود ہیں لیکن لب ہیں کہ خاموش ہیں، اس کیس کو تیزی کے ساتھ مکمل کرانے کی بھرپور کوششیں کرنے والے ایک سینئر پراسیکوٹر چوہدری ذوالفقار پر اسرار انداز میں قتل کردئیے گئے۔ یہ کس کی طرف سے اور کس کےلئے پیغام تھا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، تاریخ پر تاریخ پڑتی جاتی ہے۔ مقدمہ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتا، ایک مقبول لیڈر کے قتل کا مقدمہ ہمارے قانونی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہے اورمحترمہ کے مداح آج بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ قاتلان بے نظیر کب کٹہرے میں لائے جائیں گے؟ فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا، جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔ رہِ یار ہم نے قد م قدم تجھے یادگار بنا دیا۔