جمہوریت، آئین، پاکستان اور اس کے عوام کےلیے خدمات پر جب بھی کوئی مورخ، مفکر ، صحافی اور دانشور قلم اٹھائے گا تو وطن عزیز کے سیاسی ، آئینی ، دفاعی ، معاشرتی اور معاشی میدان میں بھٹو خاندان کی خدمات کے باب کو ہمیشہ اولین اور نمایاں مقام حاصل رہے گا۔ ہمیں فخر ہے کہ سر زمین پاکستان کے عوام کے حقوق اور جمہوری نظام کےلیے آواز سر بلند کرنے والا اور عوام کےلیےاپنی جان قربان کرنے والا ہمارا اولین اور عظیم رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو تھا ۔ اور پھر ان کے بعد ان کی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹونےپاکستان پیپلزپارٹی کےپلیٹ فارم سے عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا اور ملک اور عوام کےلیے جدوجہد اور خدمت کی نئی اور درخشندہ مثالیں قائم کیں۔ اور آخرکار اپنے عوام کےلیےجمہوریت، حقوق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو لیاقت باغ میں عوام کے درمیان اپنی جان قربان کردی۔ اگر آج ہم جمہوریت اور جمہوریت سے وابستہ امنگوں کے عہد میں زندہ ہیں اور طاقت کے ایوان اگر آج عوام کے منتخب نمائندوں کی سیاسی دسترس میں ہیں تو اس کا کریڈٹ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو جاتاہے۔ جنہوں نے ماضی کے مطلق العنان آمروں، جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے شکنجے سے اقتدار لیکر واپس عوام کی جھولی میں ڈالا اور یہ معرکہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا مگر پیپلز پارٹی کے عظیم رہنماؤں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ہم فخر سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہہ انہوں نے ضیا الحق جیسے امر مطلق اور پھر پرویز مشرف ایسے ڈکٹیٹر کا مقابلہ کیا اور عوام کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دلائے۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ اقتدار کے دنوں میں مرد آہن ، بے باک لیڈر، شیر پنجاب اور اس طرح کے دیگر القابات رکھنے والوں نےپارٹی سے راہیں جدا کر لیں اور مشکل وقت میں بیرون ملک فرار ہو گئے یا پارٹی سے دوری اختیار کر لی۔ مگر سلام ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جرأت اور عظمت کو جو کبھی کسی جابر اور آمر کے اگے جھکیں اور نہ جمہوریت اور عوام کی قیمت پر کسی آمرسے کوئی سودے بازی کی۔ اس کےبر عکس انہوں نے اپنی ذات پر جبر، قید و بند اور جلا وطنی کی اذیتیں برداشت کیں۔ ایک مرتبہ جنرل ضیاالحق کی آمریت کے مصائب کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ " گرمی کی شدت نے میری جیل کی کوٹھری کو تندور میں تبدیل کر دیا تھا اور میرے ہاتھوں کی جلد گرمی کی شدت سے اترنے لگی تھی اور چہرے پر گرمی کے داغ نمایاں تھے۔ رات کو کیڑے مکوڑے، مچھر اور دن کو مکھیاں چین نہیںلینے دیتی تھی" اس طرح کےکئی دور محترمہ کی زندگی میں آئے مگر کبھی ایک لمحہ کےلیے بھی ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔ انہیں مشکلات اور مصائب سے گزرتے ہوئے محترمہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوارجمہویت دشمنوںکی سازشوں کی وجہ سے نامکمل رہے، انہوں نے وطن اور اس کی عوام کےلیے کئی بے مثال کامیابیاں حاصل کیں جن میں میزائیل ٹیکنالوجی کا حصول بھی شامل ہے۔ حکومت اب کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو مگر سچ یہ ہے کہ ہم آج بھٹو کے وژن کے عہد میں زندہ ہیں۔ اور یہ عہد ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہمیں کامیابیوں کی آخری منزل تک لے جائے گا۔ آج کوئی ذی شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ محترمہ کی تحمل، امن اور برداشت کی پالیسی ہی جمہوریت کی اصل روح ہے اور آج اگر اس ملک میں جمہوریت ہے، اور جمہوری قدروں کی پہچان ہے تو یہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے اس سیاسی وژن کی بدولت ہے جسے عوام نے دل و جان سے قبول کیا اور سیاسی نظام کےلیے اپنایا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں ہم ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سیاسی وژن کی روشنی میں وطن عزیز کو دنیا کے خوشحال، مضبوط اور مستحکم ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں گے۔ ہم اپنی قائد کو وطن اور جمہوریت کےلیے ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے مشن کی تکمیل کےلیے عوام کے شانہ بشانہ اپنی جدوجہد ہمیشہ جاری رکھیں گے۔