• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27دسمبر پھر آ گیا۔ نہ بھولنے والا دن۔ زندگی کے گیارہ سال بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزارے اور براہ راست تعلق اور رابطہ رہا۔ محترمہ نے ہمیشہ بے حدعزت دی بلکہ سچ یہ ہے کہ قدر کی۔ پیپلز پارٹی چھوڑنے کے باوجود ان سے قلبی تعلق ختم نہیں ہوا۔ 1997ء میں انہوں نے مجھے پنجاب پی پی پی کا سیکرٹری اطلاعات بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ پنجاب کے صدر رائو سکندر اقبال نے میرے ساتھ لڑائی شروع کر دی جس پر محترمہ نے کہا کہ رائو صاحب کے ساتھ معاملات بہتر کریں لیکن رائو سکندر کا گروپ مجھے کسی طرح بھی چلنے نہیں دینا چاہتا تھا جس پر میں نے عہدے پر اڑے رہنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا۔ محترمہ کی عزت دینے کا عالم یہ تھا کہ میرے پنجاب کاعہدہ چھوڑنے کے بعد انہوں نے سیاسی پارٹیوں کے اتحادوں GDA, PAI اور اے آر ڈی کا پی پی پی کی طرف سے مجھے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نامزد کر دیا۔ محترمہ جلاوطنی سے قبل جب بھی لاہور تشریف لاتیں تو ایئرپورٹ اور دوسرے مقامات پر میرے ساتھ خصوصی بات کرتیں جس سے لوگوں کوایک اہمیت کا علم ہوتا تھا۔ اسی طرح جب لندن میں اے آر ڈی کے اجلاس میں میاں نواز شریف اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ CoDپر دستخظ ہوئے تو انہوں نے پی پی پی کے بڑے لیڈروں کو نظر انداز کر کے مجھے خصوصی طور پر اپنے پیچھے کھڑا کیا یہ ان کی ساتھیوں کو عزت دینے کا عملی مظاہرہ تھا۔ 1997ء کے بعد بڑی مشکلات کا وقت تھا۔ ایک طرف آصف زرداری جیل میں تھے تو دوسری طرف سیف الرحمٰن نئے سے نئے مقدمات بنا رہے تھے۔ روزانہ عدالتوں کی حاضری ایک معمول بن گئی تھی اور لاہور آنا جانا بہت ہوتا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے خالد احمد کھرل اور مجھے دانشوروں سے ملاقاتیں کرانے کا حکم دیا وہ مشاورت پر یقین رکھتی تھیں۔ ان کے ہر دورہ میں ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس، ناموروکلاء اور دانشوروں کے مختلف گروپوں سے خالد کھرل کے گھر ملاقات ہوتی تھی۔ جس میں ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر گھنٹوں گفتگو ہوتی تھی۔ ان ملاقاتوں کے نتیجہ میں محترمہ کیلئے اپنی سوچ بنانا بے حد آسان ہوتا تھا۔ بے نظیر بھٹو کیلئے خالد احمد کھرل کا گھر اپنا گھر ہوتا ہے۔ مسز کھرل کے ساتھ ان کی خصوصی محبت تھی۔ رات کو لکشمی چوک چنے کھانے کیلئے ان کے ساتھ چلی جاتی تھیں اور گاڑی میں بیٹھ کرنان چنے کھاتی تھیں میں نے خالد احمد کھرل سے بی بی کے ساتھ گزارے ہوئے وقت پر بات کرنے کیلئے کہا تو وہ فوراً راضی ہو گئے۔ ان کے بیٹے حیدرعلی خاں کھرل اور طاہر خلیق نے ان کو واقعات یاد کرانے میں مدد کی۔خالد احمد کھرل بتاتے ہیں کہ وہ جب لاڑکانہ میں تعینات تھے تو وزیر اعظم بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کا فون آیا کہ بے نظیر بھٹو لاڑکانہ آ رہی ہیں ان کے ساتھ ان کی امریکن دوست بھی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی خواہش ہے کہ ان کو کوئی پروٹوکول نہ دیا جائے۔ میں نے ایس پی کو بتایا کہ کوئی پروٹوکول اور سرکاری گاڑی نہیں جائیگی۔ بھٹو صاحب کی ذاتی گاڑی اور نوکر ان کو receive کریگا۔ ایس پی نے کارروائی ڈالنے کیلئے DSPشاہانی کو ریلوے اسٹیشن بھیج دیا جس پر بے نظیر بھٹو نے شدید شکوہ کیا۔ بھٹو صاحب کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو ایس پی پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور مجھے کہا کہ ’’میں اپنی اولاد کو ایوب خان کی اولاد کی طرح خراب اور بدنام نہیں کرانا چاہتا۔ میں نے ان کو ایک ڈسپلن کے تحت رکھا ہوا ہے میں نے اپنے بیٹوں کو لاڑکانہ میں گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں دی‘‘۔
کھرل بتا رہے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اولاد کو اقتدار سے دور رکھا ہوا تھا اور ان کو سفارشیں کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بے نظیر بھٹو کی تربیت ایسے حالات میں ہوئی تھی۔ بے نظیر بھٹو لندن میں جب جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھی تومیرے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ تھا۔ میں اس وقت UAEحکومت کا مشیر تھا بے نظیر بھٹو کی اعلیٰ ظرفی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے بڑی پریشانی میں مجھے دبئی فون کیا اور بتایا کہ شاہ نواز بھٹو کو فرانس میں قتل کر دیا گیا ہے اور کہا کہ آپ جنرل نیک محمد DGIBکو فون کریں کہ میں اس واقعہ کو سیاسی نہیں بنانا چاہتی اور نہ جنرل ضیاءالحق کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہوں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے وعدے کے مطابق کبھی بھی غلط الزام نہیں لگایا۔
بے نظیر بھٹو نے مجھے لندن میں بلایا تاکہ ہم ناراض بلوچ لیڈروں سے ملاقات کریں۔ بے نظیر بھٹو نے جلاوطن بلوچ رہنمائوں سے ناصرف ملاقات کی بلکہ کہا کہ مجھے جتنی محبت پنجاب، سرحد اورسندھ سے ہے اتنی ہی بلوچستان سے بھی ہے۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو پاکستان آ گئیں اوران کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ 1987ء میں امریکن صدر ریگن کے نمائندہ سینٹروں کا وفد بے نظیر بھٹو کو ملنے پاکستان آیا۔ محترمہ نے مجھے دبئی سے بلایا میں جلاوطنی ختم کر کے اور تمام خطرات کے باوجود پاکستان آ گیا اور صبح کی فلائٹ لیکر کراچی چلا گیا۔
خالد احمد کھرل مزید بتاتے ہیں کہ بے نظیربھٹوغریبوں کیلئے بڑا درد رکھتی تھیں۔ 1993ء کی الیکشن مہم میں کمالیہ تشریف لائیں تو راستے میں ایک ریڑھی سے چار چھلیاں لیں ریڑھی والے نے کسی صورت بھی پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ حکومت بننے کے بعد 1994ء میں بے نظیر بھٹو نے مجھے فون کر کے ریڑھی والے کو تلاش کر کے وزیراعظم ہائوس بھیجنے کا حکم دیا اور اپنے خرچے پر ریڑھی والے کوحج پربھیج دیا۔ 1988ء میں الیکشن جیتنے اور وزیر اعظم کا حلف لینے سے قبل بے نظیر بھٹو نے تمام وفاقی سیکریٹریوں اور چیف سیکریٹریز کا اجلاس بلایا۔ افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی قانون اور سچائی کا ساتھ دے اورغیر قانونی احکامات پرعمل نہ کرے۔ انہوں نے افسران سے کہا کہ خالد احمدکھرل اور رائو رشید نے نوکری کی پروا کئے بغیرجنرل ضیاءالحق کے غیر قانونی احکامات سے انکار کر کے ایک شاندار روایت قائم کی ہے، افسران کو چاہئے کہ یہ راستہ اختیار کریں۔
بے نظیر بھٹو پلاٹوں اور پیسے کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ 1988ء کی حکومت کے دوران میاں نواز شریف پارٹی کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک سامنے آئی۔ اپوزیشن ارکان کو چھانگا مانگا اکٹھا کیا گیا اور پنجاب حکومت نے مراعات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ساتھیوں نے بی بی کو بھی مراعات اور محفوظ مقام پر لے جانے کا مشورہ دیا انہوں نے بادل نخواستہ محفوظ مقام پر ارکان اسمبلی کولے جانے کی تجویز تو قبول کرلی لیکن پلاٹوں، پیسوں اور مراعات کی سیاست کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن خرید وفروخت نہیں کرونگی اور نہ اصولوں پر سمجھوتہ کرونگی۔بے نظیر بھٹو ہمیشہ زندہ رہیں گی وہ ایک لازوال داستان چھوڑ گئی ہیں جس کو مشعل راہ بنا کر ہی پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیاں پاکستان اورغریب عوام کی ترقی کیلئے کوششیں کر سکتی ہیں۔

.
تازہ ترین