• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منشی صاحب کی بیگم 2دسمبر کو بیمار ہوئیں۔ رات 11 بجے انہیں ایمرجنسی میںاسپتال لے جایا گیا۔بس آخری معلومات یہی ہیں‘ اس کے بعدمنشی صاحب سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔منشی صاحب میرے دیرینہ دوست ہیں‘ پورا نام میاں منیر شاہ ہے تاہم احبا ب میں نک نیم ’منشی‘ مشہور ہے۔ احباب جب بھی منشی صاحب سے ملنے جاتے ہیں انہیںگھر کی بیل بجائے بغیر اندازہ ہوجاتاہے کہ منشی صاحب گھر میں ہیں یا نہیں۔گھر میں سکون ہوتو مطلب ہے کہ منشی صاحب گھر میں نہیں… اور اگر چیخ و پکار اور برتن ٹوٹنے کی آوازیں آرہی ہوں تو اندازہ ہوجاتاہے کہ منشی صاحب نہ صرف اندر موجود ہیں بلکہ شدت سے کسی غیبی امداد کے بھی منتظر ہیں۔منشی صاحب کے بقول اُن کی بیگم آتشی سے زیادہ’داعشی‘ مزاج کی حامل ہیں اور خاوند کی پھینٹی لگانے کا کوئی سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔اس کے باوجود جب ان کی بیگم بیمارہوئیں تومیں نے منشی صاحب کو بے حد بے چین پایا۔18 دسمبر کو رات 11بجے منشی صاحب نے میرے گھربیل دی ‘ گیٹ کھولا تو گلے لگ کر زارو قطار رونے لگے۔میں بوکھلا گیا‘ جلدی سے پوچھا’منشی صاحب اللہ رحم کرے خیر تو ہے؟‘‘۔ انہوں نے آنسوبھری آنکھیں اوپر اٹھائیں، کپکپاتے ہونٹوں سے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن صرف اتنا ہی نکلا’شکیلہ‘…!!! ایک لمحے میں مجھے سمجھ آگئی کہ ان پر کیا پہاڑ ٹوٹ گیا ہے۔میرا دل بھر آیا‘ میں نے انہیں سینے سے لگایا اور آنسو پونچھتے ہوئے آہستہ سے کہا’حوصلہ کیجئے، اللہ کو یہی منظور تھا‘‘۔ منشی صاحب بلک بلک کر روپڑے’میرے دوست…مجھے پہلے ہی پتا تھا یہ جاتا ہوا سال میرے دامن میں کوئی نہ کوئی ایسا دُکھ ضرور دے کر جائے گا جس کا زخم کبھی نہیں بھر سکے گا‘۔میں نے رومال نکال کر اپنی آنکھیں پونچھیں اور دلگیر آواز میں کہا’ہونی تو ہوکر رہتی ہے‘ میں آپ کے دُکھ میں برابر کا شریک ہوں ‘ یہ بتائیے جنازہ کب ہے؟‘‘۔ منشی صاحب روتے روتے چونک اٹھے’کون سا جنازہ؟کس کا جنازہ؟‘
میں بوکھلا گیا’وہ…بھابھی کا …جنازہ‘۔ منشی صاحب نے ایک دھاڑ ماری اورروتے روتے بے حال ہوگئے۔میں اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کہ منشی صاحب کے لئے اپنی اہلیہ کے بارے میں جنازہ کا لفظ سننا کتنی اذیت ثابت ہوا ہوگا لیکن مجبوری تھی، جنازہ تو ہونا ہی تھا اور وقت پوچھنا بھی ضروری تھا تاکہ کفن دفن کے انتظامات کیے جاسکیں۔میں نے انہیں پھر حوصلہ دیا، کندھے تھپتھپائے ’صبر کیجئے منشی صاحب، خدا کی یہی مرضی تھی، ڈیڈ باڈی آگئی ہے یا اسپتال میں ہے؟‘‘۔ منشی صاحب کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی اور گھوم کر دیوار سے ٹکر دے ماری۔ میرے ہاتھ پائوں پھول گئے، منشی صاحب کو قابو کرنا مسئلہ ہورہا تھا۔منشی صاحب چلاتے جارہے تھے’2016نے مجھے برباد کر دیا… 2016نے میری خوشیاں چھین لی…2016 نے مجھے جیتے جی مار دیا۔‘‘ میں نے بمشکل انہیں چوتھی دفعہ سنبھالا’منشی صاحب! میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں لیکن پلیزمجھے بتائیے ڈیڈ باڈی کہاں ہے اور وفات کب ہوئی ہے؟‘‘منشی صاحب پوری قوت سے چلائے … ’’ابے وہ بچ گئی ہے‘‘…!!!
جاتا ہوا 2016 کئی لوگوں کو ایسے ہی غم دے گیا ہے۔کسی کو پسند کا موبائل فون نہیں مل پایا اور کسی نے اِس سال بھی یو پی ایس کی بیٹری میں پانی نہیں ڈالا۔میرا ایک ہمسایہ اس بات پر افسردہ ہے کہ 2016 میں اس کا انعامی بانڈ نہیں لگا اور یوں وہ معمولی سے فرق سے کروڑ پتی بنتے بنتے رہ گیا۔میں نے پوچھا ’نمبروں میں کتنا فرق تھا؟‘۔ آہ بھر کر بولا ، انتہائی معمولی، جو نمبر لگا وہ تھا151218 اور جو بانڈ میرے پاس تھا اس کا نمبر تھا 987566 ۔اس کی بات سن کر میری بھی آنکھیں نم ہوگئیں، واقعی اتنے ’معمولی‘ فرق کے بعد اُس کا آہیں بھرنا بنتا تھا۔ایک دوست ہیں جنہیں اب یاد آیا ہے کہ انہوں نے اِس سال سگریٹ چھوڑنے کاعہد کیا تھا ، تاہم یہ کچھ زیادہ پریشان نہیں کیونکہ انہوں نے یہی عہد اب اگلے سال کے لئے کرلیا ہے۔میں 25سال سے نوٹ کر رہا ہوں‘ ہر سال انہیں اور کچھ یاد رہے نہ رہے، یہ عہد ضرور یا درہ جاتاہے۔خود میں نے بھی اِس سال بہت سے پلان بنائے تھے ۔مجھے خوشی ہے کہ میری مستقل مزاجی نے آج مجھے یہ دن دکھایا ہے کہ میں دنیا کا وہ واحد بندہ ہوں جو سال کے اختتام پر یہ اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کر رہا ہے کہ میرے95فیصد پلان پورے ہوگئے ہیں ۔مثلاً میں نے تہیہ کیا تھا کہ میں اِس سال بھی چھوٹے اور بڑے گوشت کی بجائے چکن پر فوکس کروں گا‘ الحمد للہ کامیابی ہوئی…میں نے ارادہ باندھا تھا کہ میں اِ س سال بھی چاند یا مریخ پر نہیں جائوں گا‘ الحمدللہ کامیابی ہوئی…میں نے نیت کی تھی کہ سال کے اختتام پر ایک کالم گزرے ہوئے سال پر ضرور لکھوں گا، الحمدللہ کالم آپ کے سامنے ہے۔ جن پانچ فیصد محاذوں پر ناکامی ہوئی وہ نہایت معمولی ہیں لیکن اس میں بھی قصور میرا نہیں یعنی میںاس سال اپنے تین دوستوں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن وہ اتنے گھٹیا ثابت ہوئے کہ ان میں سے دو بیرون ملک شفٹ ہوگئے اور ایک نے میرے معافی مانگنے سے پہلے ہی مجھ سے معافی مانگ لی۔میں نے طے کیا تھا کہ میں اس سال علی الصبح اٹھا کروں گا لیکن کسی نے مجھے نہیں اٹھایا لہذا عموماً ’علیٰ الدوپہر‘ ہی آنکھ کھلی۔
2016 کی رخصتی پر میں بہت پریشان ہوں، مجھے پتا ہے اگلے ڈیڑھ ماہ تک میںبینک کے چیک پر بھی 2016 ہی لکھتا رہوں گا’چھٹتا نہیں ہے منہ سے یہ سولہ لگاہوا‘ ۔ایک سال ہوگیا ہے بڑی مشکل سے 2016 لکھنے کی عادت ڈالی ہے اور اب 2017 آن پہنچا ہے۔ اگر حکومت آئین میں کوئی چھوٹی موٹی ترمیم کرکے ایک سال کی مدت تین سال کردے تو یہ میرے جیسے لوگوں پر احسان ہوگا لیکن مجھے پتا ہے حکومت ایسا نہیں کرے گی، ایسے موقعوں پر کیا کہنا چاہئے؟…آں…ہاں یاد آیا…تف ہے اس بے شرم جمہوریت پر!!!آج میں نے جی بھر کے بریانی کھائی ہے کیونکہ بیگم نے بتایا ہے کہ آئندہ بریانی اگلے سال بنے گی۔ سب سے زیادہ خوش میرا بیٹا ہے کہ اب اسکول اگلے سال کھلیںگے۔کچھ دنوں بعد اخباروں میں ایک تصویر چھپے گی جس میں جاتے ہوئے سال کا آخری سورج دکھایا جائے گا ۔ اخباروں میں یہ روایت بڑی پرانی ہے۔میرا ایک دوست ’روزنامہ بھیڑیا‘ کے نام سے اخبار نکالتاہے ‘ اس نے پندرہ سال پہلے ڈوبتے سورج کی ایک تصویر بنائی تھی‘ آج تک ہرسال کے اختتام پر وہی تصویر لگا کر نیچے کونے میں لکھ دیتاہے‘ فائل فوٹو۔سچی بات ہے ہمیں کیا پتا کہ یہ جاتے ہوئے 2016 کی تصویر ہے یا 2010 کی؟ لیکن مجھے لگتا ہے ہمیں اس سال کی تصویر پہچاننے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی کیونکہ اس کے اندر غور سے دیکھنے پر صاف لکھا ہوا نظر آئیگا…گو 2016گو …!!!

.
تازہ ترین