کراچی ( ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ آصف زرداری کو اگلا قائد حزب اختلاف ہوناچاہئے کیونکہ پارٹی پالیسیاں وہی بناتے ہیں، بلاول کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہئے تاکہ نئی پارٹی قیادت تیار کی جاسکے، پیپلز پارٹی کو خورشید شاہ کو ہی اپوزیشن لیڈر برقرار رکھنا چاہئے، خورشید شاہ جیسے اپوزیشن لیڈر کو ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے، شام میں امریکا کے بغیر جنگ بندی زیادہ موثر نہیں ہوگی، روس، چین اور ایران کی بات چیت کے بعد مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، ماروی سرمد، امجد شعیب، شہزاد چوہدری، امتیاز عالم اور حفیظ اللہ نیازی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال اگلا قائد حزب اختلاف بلاول کو ہوناچاہئے یا آصف زرداری کو؟ کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ آصف زرداری کو اگلا قائد حزب اختلاف ہوناچاہئے، آصف زرداری قومی اسمبلی میں آنے کے اگر قائد حزب اختلاف نہیں بھی ہوئے تو بھی اصل قائد حزب اختلاف وہی ہوں گے، پیپلز پارٹی کی سیاست کا محور آصف زرداری ہی ہوں گے اس لئے بہتر ہے کہ وہی قائد حزب اختلاف ہوجائیں، پیپلز پارٹی مضبوط اپوزیشن نہیں کرپارہی ہے، پیپلز پارٹی نے پاناما یا دیگر معاملات عمران خان کے ہاتھ میں دیدیئے ہیں، اب طاقتور اپوزیشن کا کردار عمران خان کے ہاتھ میں ہوگا، 2017ء میں زیادہ بات سڑکوں پر ہوگی تو عمران خان پہلے ہی وہاں کھڑے ہیں۔امتیاز عالم نے کہا کہ بلاول کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہئے تاکہ انہیں تجربہ اور پارٹی کیلئے نئی قیادت تیار کی جاسکے، آصف زرداری اچھے بولنے والے نہیں البتہ ڈرائنگ روم سیاست میں ان کا بڑا مقام ہے، 2017ء کا سال ہنگاموں اورا حتجاج کا نہیں ہوگا، عمران خان کو کراچی میں شوکت خانم اسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا اپوزیشن لیڈر بننا پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہوگا، خورشید شاہ جیسے اپوزیشن لیڈر کو ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے، خورشید شاہ نے بہترین اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا ہے، پاناما ایشوپر خورشید شاہ کی تقریر بہت متاثرکن تھی، بلاول ابھی نوجوان ہیں فی الحال وہ اتنا تجربہ نہیں رکھتے جہاں وہ پالیسیاں اور طریقہ کار سیکھ سکیں۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن لیڈر ہوں گے، آصف زرداری ایک زیرک اور مفاہمت پسند سیاستدان ہیں، آصف زرداری فاطمہ بھٹو اور غنویٰ بھٹو کو بھی اپروچ کررہے ہیں۔امجد شعیب نے کہا کہ خورشید شاہ کے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے بھی پالیسی آصف زرداری ہی بناتے تھے، اب جب آصف زرداری پارلیمنٹ میں آرہے ہیں تو انہیں ہی اپوزیشن لیڈر ہونا چاہئے،خورشید شاہ دھواں دھار تقریریں تو کرتے رہے ہیں مگر جب بھی وہ حد سے آگے بڑھے تو چوہدری نثار نے انہیں ان کے کیسوں کی یاد دہانی کروائی جس کے بعد ان کے غبارے سے ہوا نکلتے دیر نہیں لگی۔ماروی سرمد نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو خورشید شاہ کو ہی اپوزیشن لیڈر برقرار رکھنا چاہئے، بلاول ابھی سیاست میں نووارد ہیں، آصف زرداری مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں اس سے پیپلز پارٹی کو فائدہ نہیں ہوگا۔دوسرے سوال شام میں امریکی کردار کے بغیر جنگ بندی! کیا دنیا میں طاقت کا مرکز تبدیل ہورہا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے امجد شعیب نے کہا کہ شام میں امریکا کے بغیر جنگ بندی زیادہ موثر نہیں ہوگی، امریکا لازماً اس جنگ بندی کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا، صرف شام میں امریکی کردار سکڑنے سے دنیا میں طاقت کا مرکز تبدیل نہیں ہوتا نظر آرہا۔ماروی سرمد نے کہا کہ امریکا شام میں جنگ بندی کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، روس کے فعال ہونے کے بعد دنیا میں متبادل طاقت کا مرکز ابھر رہا ہے۔امتیازعالم نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے تحت شام میں امریکی مداخلت احمقانہ تھی، روس، چین اور ایران کی بات چیت کے بعد مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، ٹرمپ کی ایشیا پیسفک ریجن پالیسی چین کے حق میں جائے گی۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ دنیا میں طاقت کا مرکز تبدیل کی کوشش کی جارہی ہے لیکن امریکی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ لگایا جارہا ہے، شام میں امریکی کردار ختم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔