مرحوم نوابزادہ صاحب کی طرح صدر ممنون حسین بھی شعر وادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور گفتگو کے دوران شعر کے برموقع اور برمحل استعمال کا سلیقہ بھی۔ نواب زادہ صاحب تو ایک دور میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلسِ احرار کے ترجمان ’’آزاد ‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے، موڈ میں ہوتے تو خود بھی مشقِ سخن فرما لیتے۔ تب ’’ناصر‘‘ تخلص کرتے تھے۔ کیا ممنون صاحب خود بھی شعر کہتے ہیں؟ یہ راز ابھی تک فاش نہیں ہوا ۔ جمعرات کی دوپہر ملک بھر سے ، پچاس کے لگ بھگ اربابِ صحافت ایوانِ صدر میں مدعو تھے۔ باتوں ہی باتوں میں ارباب اقتدار کے لیے ایسے عظیم الشان محلات اور شاہانہ پروٹوکول کی بات بھی چل نکلی۔ جناب صدر کا کہنا تھا، یہ عظیم الشان عمارات حکومت کی نہیں، ریاست کے شکوہ کی علامتیں ہیں، غریب اور پسماندہ اقوام بھی جس کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان عظیم الشان محلات میں لوگ آتے ہیں، اپنے حصے کی مدت گزارتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ یہاں انہیں راحت اندوری(بھارت کے معروف مزاحمتی شاعر) کا شعر یاد آیا؎
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
پروٹوکول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، وہ خود بھی اس میں سخت گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ میاں صاحب کے گزشتہ دور میں وہ سندھ کے گورنر تھے، تو دوست احباب سے ملنے خود ہی گاڑی لے کر نکل جاتے۔ اب بھی جی چاہتا ہے کہ اسی آزادی سے گھومیں پھریں۔ لیکن سیکورٹی کے مسائل حائل ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی نے اِن مسائل کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ ملٹری سیکرٹری صاحب اصرار کرنے لگتے ہیں، سر! یہ مناسب نہیں ، تاہم انہیں اتفاق تھا کہ شاہانہ پروٹوکول اور سیکورٹی کے ضروری تقاضے ، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہاں جناب وامق زبیری نے ایک دلچسپ بات یاد دلائی، دُنیا میں کہیں بھی پرائم منسٹر کے لیے ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی نہیں ہوتے۔ یہ مملکت کی علامت، صدر مملکت کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستان بنا تو اپنے ہاں بھی یہی رواج تھا۔ (1956کے آئین کے نفاذ تک ریاست پاکستان کا سربراہ صدر کی بجائے گورنر جنرل کہلاتا تھا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ ان کے انتقال پر خواجہ ناظم الدین نے یہ منصب سنبھالا۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ صاحب وزیراعظم بنے تو اب ان کے پروٹوکول میں ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی نہیں تھے۔
اکتوبر1958تک تمام وزراء اعظم کے ساتھ یہی معاملہ رہا۔ بھٹو صاحب پہلے وزیراعظم تھے، جنہوں نے پرائم منسٹر ہاؤس کے سٹاف میں ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کا بھی اہتمام کیا اور پھر یہ ’’بدعت‘‘ مستقل ہوگئی۔
نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ، تو انہوں نے ’’پرنسپل سیکرٹری ٹوپرائم منسٹر‘‘ کو ’’سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر‘‘بنا دیا ، جبکہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو پرائم منسٹر آفس کا نام دے دیاگیا۔ جہاں تک ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کا تعلق ہے، وزیراعظم اپنے پروٹوکول سے انہیں الگ کرنا بھی چاہیں تو یار لوگ اِسے کیا کیا معنی نہیں پہنائیں گے؟ اور سول، ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے افواہوں اور قیاس آرائیوں کے کیا کیا پتنگ نہیں اُڑائیں گے؟
’’جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے‘‘، اس لافانی حقیقت کا اظہار ، ایوانِ صدر میں لگی ہوئی تصاویر سے بھی ہوتا ہے۔ موجودہ ایوان صدر کا سنگ بنیاد بھٹو صاحب کے دور میں رکھا گیا۔ اس کی تکمیل ضیاءالحق دور میں ہوئی۔ انہوں نے رہائش تو آرمی ہاؤس ہی میں رکھی لیکن صدارتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ایوان صدر بھی تشریف لے آتے۔ غلام اسحاق پہلے صدر تھے جو یہاںمقیم ہوئے۔ کہنے والے انہیں بابائے اسٹیبلشمنٹ بھی کہتے تھے، وہ اس پر چڑنے کی بجائے آسودگی پاتے۔ ضیاءالحق کے جانشین کے طور پر انہیں 8ویں ترمیم کے غیر معمولی صدارتی اختیارات’’ورثے ‘‘ میں ملے تھے۔ 58/2B کے تحت انہوں نے 2منتخب حکومتوں کو برطرف کیا۔ اگست 90میں بے نظیر صاحبہ کو اور اپریل 1993میں میاں صاحب کی پہلی حکومت کو رخصت کیا۔
میاں صاحب سپریم کورٹ سے بحالی کا پروانہ لے کر دوبارہ آگئے لیکن بابائے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ایک دن آرام سے گزارنے نہ دیا۔ آخر کار جولائی میں ایک ’’معاہدے ‘‘ کے تحت وزیراعظم صاحب کے ساتھ وہ بھی رخصت ہوگئے۔ عام انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار تھے۔ اس حوالے سے ان کے بہی خواہوں کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ خان صاحب کا تو اسلام آباد میں اپنا گھر بھی نہیں ۔ (انہیں سر چھپانے کے لیے ایوان صدر چاہیے) لیکن ان کی زخم خوردہ بے نظیر بھٹو، دوبارہ ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ اپنے قابل اعتماد لغاری بھائی کو لے آئیں، لیکن ان کے ہاتھوں بھی وہ اسی انجام سے دوچار ہوئیں اور پھر لغاری بھی اپنی مدت پوری کئے بغیر، دسمبر1997میں رخصت ہوگئے۔ یہ میاں صاحب کا دوسرا دور حکومت تھا جنہوں نے آتے ہی 13ویں ترمیم کے ذریعے، لغاری صاحب کو فضل الٰہی چوہدری بنادیا تھا۔
ایوان صدر میں لگی ہوئی تصویریں کیا کیا کہانیاں لئے ہوئے ہیں۔ ضیاءالحق نے 5جولائی 1977کو بھٹو صاحب کی برطرفی کے ساتھ ، صدر فضل الٰہی چوہدری سے continue کرنے کی درخواست کی۔چوہدری صاحب کے پانچ سال پورے ہوئے، تو ضیاءالحق اس منصب پر ان کی مزید موجودگی کے خواہاں تھے لیکن چوہدری صاحب نے اجازت چاہی۔ سزائے موت کے خلاف بھٹو کی اپیل آخری مرحلے میں تھی جس کے بعد رحم کی اپیل کے سلسلے میں چوہدری فضل الٰہی شایدکسی آزمائش میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ جناب رفیق تارڑ نے 12اکتوبر کے بعد جنرل مشرف کی خواہش پر continueکرنے کا فیصلہ کیا(شریف فیملی کی خواہش بھی یہی تھی )تارڑ صاحب کے بقول ان کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ خدانخواستہ کوئی بھٹو جیسا سانحہ دوبارہ سامنے نہ آجائے اگرایسا ہوا تو کوئی ان کی بات سنے یا نہ سنے ، وہ ننگے پاؤں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ دسمبر 2000میں میاں صاحب اپنی فیملی کے ساتھ جدہ سدھار گئے۔ جون 2001میں مشرف نے صدر صاحب سے مستعفی ہونے کی درخواست کی اور انکار پر انہیں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے رخصت کردیا، رخصتی کے وقت مشرف نے انہیں سیلوٹ کیا جس پر ’’آئینی صدر‘‘ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ تارڑ صاحب کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا کالم یا دآیا۔ انہوں نے لکھا تھا’’ایک آمر نے آئینی صدر کو سیلوٹ کیالیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا‘‘ اور پھر مشرف بھی دل پر بھاری پتھر رکھ کر ایوان صدر سے رخصت ہوگیا۔ جمعرات کی دوپہر بے تکلف ظہرانے پر صدر ممنون حسین میڈیا سے گلہ گزار تھے کہ اس کا رویہ عوام اور خصوصاً نئی نسل میں مایوسی پیدا کرنے کا سبب بنا رہا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ بات کچھ ہوتی ہے اور میڈیا اسے کچھ اور طرح نشر کردیتا ہے۔ وہ ابھی تک اس صدمے سے نہیں نکلے تھے کہ سود کے حوالے سے میڈیا نے ان کی بات کو کیا سے کیا بنادیا، اسی طرح وزیراعظم نے سرمایہ کاری کانفرنس میں لبرل اکانومی کی بات کی تھی، جسے میڈیا نے یوں پیش کیا جیسے وہ مغرب کے لبرل ازم کی بات کررہے ہوں۔ میڈیا کے حوالے سے ہماری تشویش ایک اور حوالے سے تھی۔ کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کا ایک گروہ قوم کو آئینی نظام ہی سے متنفر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یاد آیا، کچھ عرصہ قبل شامی صاحب نے کہا تھا، کیااس پر آرٹیکل 6کا اطلاق نہیں ہوتا؟