اسلام آباد (انصار عباسی)وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی وغیرہ کیخلاف جاری کرپشن انکوائری کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے نیب کے متعلقہ حکام نے ادارے کی سینئر انتظامیہ سے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ کرپشن کے سب سے بڑے معاملات میں مذکورہ بالا شخصیات کیخلاف انکوائری کیلئے 31 دسمبر 2015ء کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ کئی دیگر معاملات میں جاری مختلف انکوائریز ختم کرنے یا پھر ان کے کیس پختہ ہونے کی سفارش کی گئی ہے لیکن مذکورہ بالا شخصیات کے خلاف ہائی پروفائل مقدمات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا۔ نیب میں موجود ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ متعلقہ ڈائریکٹر جنرل صاحبان نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر خزانہ اور دیگر کے خلاف طویل عرصہ سے جاری انکوائریز کیلئے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر کے خلاف رائیونڈ سے جاتی امرا میں شریف خاندان کی رہائش گاہ تک سڑک کی تعمیر کیلئے مبینہ طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام تھا اور اس سلسلے میں نیب نے انکوائری مکمل کرنے کیلئے 31 دسمبر 2015ء کی تاریخ مقرر کی تھی۔ نیب سے متعلقہ سیکشن سے کہا گیا تھا کہ مذکورہ تاریخ تک چیئرمین نیب کو سفارش کریں کہ آیا الزامات میں جان ہے تاکہ وزیراعظم اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا سکے یا پھر یہ کیس میرٹ کے مطابق بند کر دیا جائے۔ یہ کیس نیب میں 2000ء سے زیر التوا تھا اور اس میں 125؍ ملین روپے کی خرد برد پر انکوائری ہو رہی تھی۔ اس کیس میں نیب حکام نے دستیاب شواہد کی بنیاد پر مزید وقت کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 1999ء سے زیر التوا ایک اور انوسٹی گیشن کے مطابق ان پر مبینہ طور پر ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کا الزام ہے۔ اس تحقیقات کا فیصلہ ان کے حق میں یا ان کے خلاف 31 مارچ 2016ء تک ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے معاملے میں نیب کی جانب سے انوسٹی گیشن کیلئے 15 دسمبر 2015ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ یہ انکوائری 2000ء سے زیر التوا تھی۔ ڈار پر مبینہ طور پر الزام تھا کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور وسائل سے زیادہ اثاثے بنائے۔ اس کیس میں بھی نیب نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے معاملے میں، نیب ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور وسائل سے زیادہ اثاثے بنانے کے مبینہ الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ انکوائری بھی 31 دسمبر 2015ء تک مکمل ہوجانا چاہئے تھی۔ گجرات کے چوہدریوں پر 2000ء میں پرویز مشرف کے ساتھ اتحاد کرنے سے قبل الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس کیس میں بھی نیب کے متعلقہ حکام کو مزید وقت درکار ہے تاکہ وہ کارروائی آگے بڑھانے یا پھر کسی ختم کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔ اسی طرح کی ایک ڈیڈلائن پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر کیلئے مقرر کی گئی تھی۔ ان پر رینٹل پاور کا ٹھیکہ دینے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ راجہ اور ترین کیخلاف ایک اور انکوائری بھی ہو رہی ہے، یہ انکوائری سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں نیب کو بھجوائی تھی۔ یہ انکوائری بھی گزشتہ سال کے آخر تک مکمل ہونا تھی۔ راجہ پرویز اشرف اور دیگر کے خلاف ایک اور انکوائری تھی جس کا فیصلہ ہوسکا ہے اور نہ ہی یہ کیس پختہ ہو پایا ہے۔ یہ انکوائری سوہاوا س چکوال تک اور مندرا سے گوجر خان تک سڑک بنوانے کے معاملے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے ہے۔ سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا آفتاب شیرپائو کے خلاف وسائل سے زیادہ اثاثے بنانے کی انکوائری ہو رہی تھی تاہم یہ انکوائری گزشتہ سال اگست میں بند کر دی گئی۔ یہ انکوائریاں اور انوسٹی گیشن کرپشن کے ان 150 بڑے اسکینڈلز کے حوالے سے ہیں جن کی رپورٹ نیب نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔ سیاست دانوں کے علاوہ ہائی پروفائل حاضر سروس اور ریٹائر بیوروکریٹس کے ساتھ کچھ سابق جرنیلوں کے خلاف بھی کیس موجود ہیں۔