پیش گوئیوں اور فقرے بازی کے لیے مشہور شیخ رشید احمد نے پاناما کیس پر سپریم کورٹ میں دلائل دیے تو کمرۂ عدالت میں قہقہے بکھر گئے۔
وہ قانونی نکات کےساتھ اپنے حالات زندگی بھی بتانے لگ گئے، ججز نے یاد کرایا کہ وہ کمرۂ عدالت میں ہیں۔
شیخ رشید احمد نے پاناما لیکس کیس میں اپنے دلائل میں لارجر بینچ کو خو د تو لاء پوائنٹس کم ہی بتائے لیکن ان کا اصرار تھا کہ ججز کو سارے کیس کا پتہ ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط ٹشو پیپر سے زیادہ اہم نہیں ہے اور کیس میں شریف فیملی کا مؤقف رضیہ بٹ کا ناول ہے۔
شیخ رشید کہنے لگے کہ قطری شہزادہ نواز شریف کا ریسکیو ون ون ٹو ٹو ہے، اس پر عدالت میں موجود وکلاء سمیت حاضرین کے قہقہوں کی آواز گونج گئی جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے شیخ رشید کو کہا کہ آپ سیریئس ہو جائیں، کورٹ میں موجود ہر آدمی سیریئس رہے یہ عدالت ہے۔
شیخ رشید احمد کو دوبارہ دلائل کا کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ جج صاحب سار ا کیس آپ کے سامنے ہے، ایک طرف پوری قوم ہے دوسری طرف ایک خاندان ہے، ساڑھے تین سال میں حکومت نے ایک افسر کو میرٹ پر نہیں لگایا۔
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں کیس کے لا پوائنٹس بتائیں، سیاسی تقریر نہ کریں۔
شیخ رشید نے دوبارہ اپنے دلائل انگلش میں دینا شروع کرتے ہوئے کہاکہ ’’آل دی انویسٹی گیٹنگ ایجنسیز آر دی پاکٹ واچ آف گورنمنٹ‘‘ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ عدالت میں ایک بار پھر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔
شیخ رشید ایک بار پھر گویا ہوئے کہ میں ایک سیاسی ورکر ہوں اور کونسلر سے اوپر آیا ہوں، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو لاء پوائنٹس بتائیں اپنے حالات زندگی نہیں۔