• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مضبوط نظریاتی بنیادوں پر استوار ریاستوں میں کرپشن کی یہی اوقات ہوا کرتی ہے۔
ملک عزیز میں کرپشن بڑی لاچار ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے معاملے میں یہاںہر کوئی مولا جٹ ہے۔ دودھ میں پانی سے لے کر زہریلے کیمیکلز ملانے والا بھی بد عنوانوں کے احتساب کا عزم صمیم رکھتا ہے اور بڑے سے بڑا بلیک مارکیٹیا بھی اسی بڑھک سے صبح کا آغاز کرتا ہے۔ جعلی ویزوں کا بیوپاری بھی بے ایمانی سے نالاں ہے اور دو نمبر ادویات بنانے والا بھی پریشاں۔ شیخ کو بھی بدعنوانی کے نا م سے مروڑ اٹھتے ہیں اور رِند کو بھی مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ کلرک نے بھی اپنی درانتی کرپشن کی جڑوں میں رکھی ہوئی ہے اور اعلیٰ افسر بھی ان جڑوں میں تیزاب ہی انڈیلتا آیا ہے۔ صحافی بھی اس سے ایڈز زدہ خاتون کی طرح نفرت کرتا ہے اور سیاستدان بھی اسے ناپسندیدہ کنیز کی طرح گھر سے نکالنے پر تلا ہوا ہے۔ مولوی کا بھی یہی موٹو ہے اور عدلیہ کا بھی یہی سوموٹو۔
تاہم کرپشن بھی شوگر کی طرح ایسی ڈھیٹ بیماری ہے کہ ایک دفعہ جہاں گھر کر جائے تو پھر قبر تک ساتھ دیتی ہے۔ اب اپنی ہی مثال لے لیجئے۔ اللہ کے کرم سے پوری قوم کرپشن کے خلاف ایک ہی صفحے پر ہے اور اس نامراد کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے مگر جوں جوں ہم اس کی جڑیں کاٹتے ہیں، یہ کمبخت اسی رفتار سے ہماری جڑوں میں بیٹھتی جا رہی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی ٹکے کی وقعت نہیں مگر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے بدعنوان ممالک کے انڈیکس میں اس ناہنجار نے ہمیں 117ویں نمبر پر رسوا کر رکھا ہے۔ حالانکہ ہم ایک اسلامی جمہوریہ اور حج و عمرہ کرنے والی دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں۔ اب تو خیر سے ہم دہشت گردی کے خلاف 39مسلم ممالک کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بھی بن گئے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو اس اسلامی بلاک سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے بعد ہم وطن عزیز میں بھی اس وحشت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ یاد رہے کہ جیسے ہمارے ہاں دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہمیں کرپٹ بنانے کے پیچھے بھی غیر مسلموں کی گھنائونی سازشیں کار فرما ہیں، ورنہ ہم تو روزِ ازل سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کرپشن اور دہشت گردی جیسی خرافات کو جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہیں جبکہ دشمنوں کا بلاک ہمارے خلاف ان ناسوروں کی نرسریاں قائم کرنے کا گھٹیا پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتا جبکہ کیا دھرا سب ان کا اپنا ہے۔
نئے سال کے آغاز میں ہم نے کرپشن کے خلاف ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ پلی بار گین سے متعلق نیب کے احتساب قانون کی شق A-25میں ترمیم پر مبنی صدارتی آرڈیننس لایا گیا ہے۔ پلی بارگین کا قانون امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، بھارت، فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ ہم نے اپنے فہم کے مطابق یہ سمجھا ہے کہ بنیادی طور پر یہ استغاثہ اور ملزم کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے، جس میں ملزم اقبال جرم کرتا ہے اور جواب میں استغاثہ اسے کچھ رعایت دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جہاں روپے پیسے کا معاملہ ہو، وہاں چار ٹکے اِدھر اُدھر ہو ہی جاتے ہیں۔ سو معاملے پر مٹی ڈالتے ہوئے پلی بار گیننگ کی جاتی ہے کہ اس شارٹ کٹ سے عدالتوں، وکلاء، استغاثہ اور ملز م کا قیمتی وقت اور روپیہ ضائع ہونے سے بچتا ہے۔ اسی اصول کے تحت وطن عزیز میں بھی پلی بار گیننگ کو قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999ء کے تحت متعارف کرایا گیا تاکہ قومی خزانے کی تھوڑی بہت ہاتھوں کی میل اِدھر اُدھر ہو جانے پر تخریبی شور شرابے سے تیز رفتار ترقی کا راستہ رکنے کی بجائے پلی بار گیننگ سے مسئلہ حل کر لیا جائے۔ یعنی قومی خزانے کو تھوڑا بہت دے دِلا کر چپ کرا دیا جائے اور روشن مستقبل کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔
قومی احتساب بیورو نے گزشتہ دس برس کے دوران پلی بارگین سے بیس ارب روپے کی وصولی کی، جو ہمارے ایسے ملک میں یقیناً ایک بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ کرپشن مخالف جذبات رکھنے کے باوجود یہاں ہر کسی نے قومی خزانے کواپنے والد بزرگوار کا مال سمجھ رکھا ہے۔ تاہم اس قانون پر اندرونی و بیرونی بے چینی اور اعلیٰ عدالتوں کے غیر مطمئن ہونے کی بنا پر حکومت نے نیا آرڈیننس جاری کیا ہے، جس کے تحت پلی بار گین کے لئے چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیار کو ختم کر کے احتساب عدالت کو فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اب سزا یافتہ افراد سرکاری ملازمت یا عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفر خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ نیا قانون دنیا کے تمام مروجہ قوانین میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ اگر دنیا اب بھی کرپشن کے خاتمے کیلئے ہماری سنجیدگی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو اس کی مرضی۔
تاہم بال اب عدالتوں کے کورٹ میں ہے۔ ہمیں قومی امید ہے کہ پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کے مقدمات عدالتوں میں روایتی قانونی موشگافیوں کی بنا پر طوالت اختیار نہیں کریں گے کہ جس کی آڑ میں غیر ذمہ دار عناصر اس مقصد کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کر دیں۔
توقع رکھنی چاہئے کہ اس ترمیمی آرڈیننس کے بعد پوری قوم خصوصاً عمران خان جیسے کرپشن دشمن لیڈر سکھ کا سانس لیں گے۔ کرپشن کے خلاف خان صاحب کا پاناما اسکینڈل نامی ایک بڑا مقدمہ بھی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ ہمارے ناقص خیال میں احتساب احتساب کا شور مچانے میں کوئی حرج نہیں لیکن عملاً ذرا محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ زیادہ جذباتی ہونے کی صورت میں اس ترمیمی آرڈیننس سے نااہل ہوتے ہوتے سارے ہی نااہل ہوجائیں اور اقتدار کی گلیاں سنجیاں ہونے پر عام آدمی مرزا یار بن کر ان میں پھرنے لگے۔ ہمارا یہ ڈر بے جا نہیں کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران ایک فاضل جج نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آئین کی دفعات 62,63کا اطلاق ہوا تو آپ کے موکل سمیت کوئی بھی نہیں بچے گا۔
لاریب! مضبوط نظریاتی بنیادوں پر استوار ریاستوں میں کرپشن کی یہی اوقات ہوا کرتی ہے۔ تاہم احتساب احتساب کا زیادہ شور، احتیاط کا تقاضا بھی کرتا ہے۔

.
تازہ ترین