کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سی پیک پر نئی آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جائے گی، جولائی 2013ء سے قبل چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کا کوئی طے شدہ روٹ یا انڈرا سٹینڈ نگ نہیں تھی،سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں نے سی پیک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کیں،مغربی روٹ چین نہیں پاکستان کے وسائل سے بنایا جارہا ہے،کوریڈور کسی سڑک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تمام منصوبوں کے فریم ورک کا نام ہے، مغربی روٹ پر اب تک چالیس ارب خرچ کیے جاچکے ہیں،سی پیک کا مغربی روٹ 2018ء تک مکمل ہوجائے گا جبکہ مشرقی روٹ 2019ء میں مکمل ہوگا،عمران خان نے خیبرپختونخوا حکومت کو سی پیک اجلاسوں میں شرکت سے روکا ہوا تھا، جے سی سی کے چھٹے اجلاس تک اورنج لائن ٹرین منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں تھا،گوادر کیلئے روزانہ پانچ ملین گیلن پانی کے آر او پلانٹ پر کام شروع ہوگیا ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پارلیمانی سیکرٹری برائے منصوبہ بندی و ترقی ڈاکٹر عباد اللہ بھی شریک تھے۔ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ سی پیک کو متنازع کنٹینر پر کھڑے ہونے والے لیڈر نے بنایا ہے، وزیراعظم نواز شریف نے سی پیک پر تحفظات دور کرنے کیلئے اے پی سی بلائی،پاکستان کے مخالف سی پیک کے بھی مخالف ہیں،مولانا فضل الرحمن کے سی پیک پر تحفظات دور کردیئے گئے ہیں،سی پیک پر اعتراضات کرنے والی جماعتوں نے آج تک پارلیمانی کمیٹی میں نہ اعتراض کیا نہ واک آؤٹ کیا، مشاہد حسین اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق سے تعلق رکھتے ہیں۔احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن پاکستان کے تین صوبوں سے حق نمائندگی کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے، سی پیک پر کام جولائی 2013ء سے شروع ہوا، اس سے پہلے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کا کوئی طے شدہ روٹ یا انڈراسٹینڈنگ نہیں تھی، وفاق نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے منصوبوں کیلئے مدد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں نے سی پیک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی،اے پی سی میں مغربی روٹ پر ڈیرہ اسماعیل خان سے برہان تک سڑک تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا گیا،یہ منصوبہ 2016ء میں شروع کردیا گیا ہے جسے 2018ء تک مکمل کرلیا جائے گا،مغربی روٹ چین نہیں پاکستان کے وسائل سے بنایا جارہا ہے،چین نے سوراب سے گوادر تک س650 کلومیٹر سڑک مکمل کر کے مغربی روٹ کوا ٓپریشنل کرنے پر پاکستان کوسراہا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کوریڈور کسی سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ تمام منصوبوں کے فریم ورک کا نام ہے،اقتصادی راہداری کے نقشے میں مغربی، مشرقی اور سینٹرل تین روٹ موجود ہیں،مغربی روٹ پر اب تک چالیس ارب خرچ کیے جاچکے ہیں،سی پیک کا مغربی روٹ 2018ء تک مکمل ہوجائے گا جبکہ مشرقی روٹ 2019ء میں مکمل ہوگا،اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان میں کوئی نئی سڑک نہیں بن رہی ہے،موجودہ روڈ نیٹ ورک کے ذریعے کوریڈور کیلئے رابطہ سڑکیں پیدا کی جارہی ہیں،پشاور کراچی موٹروے اقتصادی راہداری کی وجہ سے نہیں ہے،پشاور کراچی موٹروے 1990ء سے شروع کیا ہوا منصوبہ ہے،اس وقت نواز حکومت ختم نہ کی جاتی تو یہ منصوبہ 2000ء تک مکمل ہوچکا ہوتا۔احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک کے اجلاسوں میں سندھ اور بلوچستان کے نمائندے بھی شریک ہوتے رہے،عمران خان نے خیبرپختونخوا حکومت کو سی پیک اجلاسوں میں شرکت سے روکا ہوا تھا،سی پیک پر وفاقی اور تمام صوبائی حکومت آن بورڈ ہیں،چین نے اپنے تمام صوبوں کو نہیں صرف سنکیانگ کو جے سی سی کارکن بنایا ہے،اس فارمولے کے تحت صرف گلگت بلتستان رکن بن سکتا ہے باقی صوبوں کا استحقاق نہیں بنتا ہے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ جے سی سی کے چھٹے اجلاس تک اورنج لائن ٹرین منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں تھا،اس سے قبل اورنج لائن حکومت پنجاب کا چینی حکومت کے ساتھ منصوبہ تھا،وزیراعلیٰ پنجاب 2008ء سے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر چینی حکومت سے مذاکرات کررہے تھے،پچھلے تین سال کے گوادر میں زمین آسمان کا فرق آیا ہے،ہم نے گوادر شہر کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے،گوادرشہر کیلئے روزانہ پانچ ملین گیلن پانی کے آر او پلانٹ پر کام شروع ہوگیا ہے،گوادر میں روزانہ دو ملین گیلن پانی کا بند پلانٹ آپریشنل کرنے کیلئے ہدایات جاری کردی ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک میں بلوچستان کے مسائل سے متعلق صوبائی حکومت سے مل کر کام کررہے ہیں، بلوچستان کے کسی حق کو پامال نہیں ہونے دیں گے،سی پیک پر نئی آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جائے گی،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا چاہتے ہیں وزیراعظم صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیں، آئینی اور قانونی معاملات پر منتخب صوبائی حکومت کا مینڈیٹ ہے،سی پیک سے متعلق معاملات پر اتفاق رائے کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈبلیو پی کے ریلوے منصوبوں میں کوئٹہ تا پشاور اور کوئٹہ تا زاہدان منصوبوں پر بھی کام شروع کردیا ہے،ایم ایل ون منصوبہ کراچی سے لے کر لنڈی کوتل تک ہے،محکمہ ریلوے ہمیں 39ارب کے خسارے کے ساتھ ملا تھا۔