کہنے والے اِسے عرب، عجم کا صدیوں پرانا تنازع بھی قرار دیتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں اب اس میں فرقہ واریت غالب ہے۔ سعودی عرب میں گزشتہ ہفتے سزائے موت پانے والے تین درجن افراد میں اکثریت ’’سنیوں‘‘ کی تھی(القاعدہ اور داعش کو سنیوں ہی میں شمار کیا جاتا ہے)۔اِن تین درجن بدقسمت افراد میں ایک استاد النمر بھی تھے، اس معروف شیعہ عالمِ دین، جن کے خلاف حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کا مقدمہ قائم ہوا، سعودی قوانین کے مطابق عدالتی کارروائی میں سزائے موت کے حقدار قرار پائے اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے نتیجے میں اگلے جہاں پہنچ گئے۔ کہا جاسکتا ہے، یہ سعودی عرب کا داخلی معاملہ تھا۔ ہر ملک کا اپنا نظامِ عدل ہے۔ یہ مسلمہ بنیادی انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے معروف تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، تو اس کی طرف توجہ دِلائی جاسکتی ہے۔ اس میں اصلاح و ترمیم کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ایرانی بھائیوں کا احتجاج تو صرف استاد النمر کی سزائے موت کے خلاف ہے، اور ظاہر ہے اس کا حوالہ فرقہ واریت ہے۔
1978-79ء میں شاہ کے خلاف تحریک میں ایران کے گلی کوچوں میں ’’لَاشیعہ لَاسُنیہ ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘ اور ’’لَا شرقیہ لاغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں کی گونج تھی چنانچہ ایران کے سُنّی بھی اس تحریک میں شامل تھے( اس میں کمیونسٹ تودہ پارٹی کے سرگرم کردار سے بھی انکار ممکن نہیں)دُنیا بھر کی اسلامی تحریکیں بھی، اس انقلاب کی پُرجوش حمایت کر رہی تھیں۔ انہی دِنوں امام خمینی کے دو نوجوان نمائندے بھی پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے اچھرہ میں مولانا مودودی ؒ سے ملاقات کی۔ وہ ایران کی انقلابی تحریک کیلئے جماعت ِ اسلامی کی حمایت پر شکریہ ادا کرنے کے علاوہ، اس حمایت کو وسیع تر کرنے کی درخواست لے کر آئے تھے۔ ظاہرہے، ایک شہنشاہ اور اتنا طاقتور شہنشاہ، جو خطے میں خود کو امریکی پولیس مین قرار دیتا تھا، امریکہ سمیت سارا یورپ اس کی پشت پر تھا، اس کے خلاف تحریک ، دیگر بادشاہوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی تھی کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے لیکن ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ایرانی شہنشاہیت کے خلاف تحریک عروج کو پہنچی ، تو سعودی عرب کے شاہ فہد کی طرف سے بھی اس کی حمایت میں بیان آگیا۔ آخر کار شاہ رُخصت ہوگیااور امام خمینی پیرس سے تہران پہنچ گئے۔ تاریخ ایک نیا موڑ مُڑ گئی۔ ایران میں غالب تعداد اہل ِ تشیع کی ہے(جس طرح پاکستان میں غالب تعداد سنیوں کی ہے) لیکن طویل جلاوطنی کے بعد امام خمینی کی تہران واپسی پر جس انقلاب کا سورج طلوع ہوا، اسے شیعہ انقلاب کی بجائے ایران کا اسلامی انقلاب قراردیا گیا جس طرح پاکستان سُنّی جمہوریہ کی بجائے، اسلامی جمہوریہ ہے۔ (یہ الگ بات کہ ایران میں پبلک لا کے طور پر جس فقہ کا نفاذ ہونا تھا، وہ فقہ جعفریہ تھی)۔ امام خمینی کی قیادت میں جو حکومت قائم ہوئی، اس میں اہم مناصب جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے سپرد ہوئے۔ صدارت جناب بنی صدر کے حصے میں آئی۔وزارتِ خارجہ صادق قطب زادہ کے سپرد ہوئی۔
جدید ایران کا کردار او آئی سی میں بھی بہت فعال ہوگیا تھا۔ بھٹو صاحب کے دور (1974) میں لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس میں شاہ ِایران نہیں آیا تھا، اِسے یہاں لیبیا کے معمر قذافی کی موجودگی گوارا نہیں تھی۔ دسمبر1979میں افغانستان کے خلاف سوویت جارحیت کو او آئی سی نے ایک سنگین چیلنج کے طور پر لیا تھا۔ اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی وزرأ خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں ایرانی وزیر خارجہ صادق قطب زادہ بہت سرگرم تھے۔ اس موقع پر او آئی سی کی طرف سے سوویت جارحیت کی مذمت اورافغانستان سے سوویت انخلا جیسے مطالبات پر مبنی 4نکاتی قرار داد کے محرک بھی قطب زادہ ہی تھے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایرانی انقلاب نے نئی کروٹ لی۔ بنی صدر ، صدارت سے فراغت کے علاوہ جلاوطنی پر بھی مجبور ہوگئے ۔ قطب زادہ پھانسی پر جھول گئے اور انقلاب پر ’’مذہبی گرفت‘‘ مضبوط تر ہوگئی۔شاہ کے حامیوں کا کڑا احتساب بھی اسی دور کی یادگار ہے۔ فوری احتساب کی عدالتوں سے صبح و شام سزائیں سنائی جانے لگیں۔ ملزموں میں سے بیشتر سزائے موت کے مستحق قرار پائے۔
اب ایرانی قیادت نے انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کا اعلان بھی کردیا تھا اور یہیں سے خطے میں مسائل کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے ، عراق کا ایران پر حملہ اسی پیش بندی کا شاخسانہ تھا۔ پاکستان ایک سنگین چیلنج سے دوچار تھا لیکن پاکستان کی قیادت نے دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ وہ سعودی عرب کے دفاع اور اس کے داخلی استحکام کیلئے ہر ممکن مدد اور تعاون پر تیار تھی، اس کیلئے اس نے عملی اقدامات بھی کئے لیکن امریکیوں کی خواہش کے برعکس اس نے ایران کی سرحد پر کسی قسم کا دباؤ پیدا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں پاکستان اور ایران کے مفادات میں تضادات سراُٹھانے لگے۔ افغانستان میں پاکستان کی دوست طالبان حکومت کے خلاف ایران کی ہمدردیاں شمالی اتحاد کے ساتھ تھیں، یہاں وہ روس اور ہندوستان کا حلیف تھا لیکن مفادات کا یہ ٹکراؤ ایک حد سے آگے نہ بڑھااور دونوں کے درمیان خوشگوار ہمسائیگی کے تعلقات استوار رہے۔ سعودی عرب(اور امارات جیسی عرب ریاستوں) کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اپنی خاص اہمیت تھی، ایسے دوست، جوآزمائش کی کسی بھی گھڑی میں آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے پر اعتماد کرسکتے تھے۔ سفارتی و دفاعی معاملات کے علاوہ اقتصادی حوالے سے بھی ان تعلقات کی بے پناہ اہمیت اور افادیت تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی ان ریاستوں سے ، اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھجواتے ہیں۔ مختلف عالمی فورمز پر اپنے مؤقف کی حمایت کیلئے ، پاکستان کو اپنے عرب دوستوں سے لابنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں پاکستان کی حمایت میں Taken for granted سمجھا جاتا ہے۔ آٹھ ماہ قبل یمن کے مسئلے پر پاکستانی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد میں نیوٹرل کے لفظ نے جو بدمزگی اور تلخی پیدا کی تھی(جناب شاہ محمود قریشی کے سوا اس کا ’’کریڈٹ‘‘ کسے جاتا ہے، جن کے اصرار پر قرارداد میں یہ آٹھواں نکتہ شامل کیا گیا تھا)Damage کنٹرول کیلئے پاکستانی قیادت کی بروقت ایکسرسائز کے نتیجے میں اس کا ازالہ ہوچکا۔ حال ہی میں ریاض سے 34ملکی اسلامی اتحاد کے قیام کا اعلان ہوا تو اس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔ پاکستان کو اس سے اتفاق تھا،(البتہ اس میں اس کے کردار کا تعین اور دیگر تفصیلات باہم بات چیت کے ذریعے طے پائیں گی)۔استاد النمر کی سزائے موت اور اس پر ایران کے ردعمل نے خطے میں کشیدگی کی نئی لہر اُٹھادی ہے۔ ایسے میں سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کے دورۂ پاکستان پر ایک دُنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ تقریباً 6گھنٹے کے اس دورے کو سفارتی زبان میں’’ورکنگ وزٹ‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس دوران جناب عادل الجبیر نے وزیراعظم سمیت سیاسی قیادت کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان نے برادر ملک کے دفاع اور داخلی استحکام کیلئے اپنی کمٹمنٹ کے اعادہ کے ساتھ 34ملکی اسلامی اتحاد میں شمولیت کی توثیق کرتے ہوئے چار شعبوں میں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرادی۔ اس میں دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس شیئرنگ، اس کیلئے کیپسٹی بلڈنگ، تعاون و تربیت اور جوابی بیانیے کی تشکیل میں تعاون شامل ہے۔ مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کی اس دلیل میں وزن ہے کہ 34ملکی اتحاد کا مقصددہشت گردی کا خاتمہ ہے تو پاکستان کو اس میں شمولیت کیلئے کوئی تذبذب ، کوئی ہچکچاہٹ کیوں ہو؟
ہمیں یہاں یمن کے بحران کے موقع پر پاکستان کی پارلیمنٹ کی منظور کردہ متفقہ قرارداد بھی یادآئی 12نکاتی قرارداد کے 10ویں نکتے میں مملکت ِ سعودی عرب کی علاقائی سلامتی اور حرمین شریفین کو کسی خطرے کی صورت میں سعودی حکومت اور اس کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا واشگاف اعلان تھا۔ 11ویں نکتے میں مختلف ٹیررسٹ گروپس اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے خطے کی سلامتی اور استحکام کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیررازم اور ایکسٹریم ازم کے خاتمے کیلئے خلیجی ریاستوں سمیت خطے کے تمام ممالک سے دوستی اور تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ سعودی وزیرخارجہ کے حالیہ دورے کے موقع پر پاکستان کا مؤقف، پارلیمنٹ کی قرارداد میں طے شدہ اسی قومی پالیسی کا اظہار تھا۔