اسلام آباد( رپورٹ: فخر درانی) امریکیوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور ہی میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی پیش گوئی کردی تھی۔ اس بات کا انکشاف سی آئی اے کی عام کی جانے والی (ڈی کلا سیف ائیڈ) انٹیلی جنس رپورٹ میں کیا گیا ہے، جو اکتوبر 1987ء میں امریکی خفیہ ادارے کے ہیڈ کوارٹر کو بھیجی گئی تھی۔ دستاویز میں ضیاء دور میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں جائزہ رپورٹ شامل ہے۔ جس میں سیاسی جماعتوں کے رویوں اوران کے رہنما ئو ں کے کردار کے بارے میں بتایاگیا ہے۔اس خفیہ یاد داشت میں آئندہ ایک اورمارشل لا کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ جس کے مطابق ’’ایک عرصہ تک پارٹی دھڑے بندیوں اور امن و امان کے مسائل کے ساتھ انتشار، جمہوری اور سیاسی اقتدار کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ایک اور فوجی حکومت کا امکان رہتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتیں خود کو سیاسی بالادستی کی معتبر قوت ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ خفیہ رپورٹ میںمزید کہاگیا ہے، گوکہ مستقبل قریب میں اقتدار پر فوج کے قبضے کاامکان دکھائی نہیں دیتا لیکن ایک مارشل لا کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگ سکتی اور سیاسی رہنما ئو ں کو قید کیا جا سکتا ہے۔ نئے فوجی حکمراں نئے عام انتخابات کااعلان بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ فوج کی نگرانی میںہوں گے اور منتخب سیاسی جماعتوں ہی کو اس میں شرکت کی اجازت ہو گی۔ اسی دستاویز میں بے نظیربھٹو کے بارےمیں اس شبے کابھی اظہارکیا گیا کہ وہ سوویت نوازافغان حکومت کی حمایت اورسوویت فوج سے برسرپیکار جنگجوئوں کی حمایت میںکمی کر سکتی ہیں۔ امریکا کے خیال میں بے نظیر بھٹو بائیں بازو کیلئے زیادہ قابل قبول ہوں گی۔ جن کا سوویت نواز افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ تھا۔ امریکی موقف کے بارے میں خود پیپلز پارٹی میں تقسیم تھی۔ بےنظیر بھٹو خود کو امریکا کی جانب مائل اعتدال پسند رہنماکے طورپر پیش کرتی رہیں۔ نجی طورپر ان کاکہنا تھا کہ وہ پاکستان کیلئے امریکی اقتصادی امداد کے تسلسل کی حمایت کرتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے عناصر اس کے مخالف تھے۔ رپورٹ میں یہ توقع بھی ظاہر کی گئی تھی کہ پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کی قیادت پر ہی انحصار کرے گی۔ اگرانہیں کچھ ہوا تو پیپلز پارٹی تقسیم ہو جائے گی۔رپورٹ کے مطابق امریکا مخالف سیاسی جماعتوں کوسوویت یونین اور افغانستان کی جانب سے سیاسی اور مالی امداد ملتی رہی اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی حکومت شاید پاک امریکا تعلقا ت میں مسائل پیدا کرے کیونکہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو، افغانستان اور منشیات کے حوالے سے امریکی تشویش کا ازالہ نہ کرسکے۔ امریکیوں کے خیال میں مسلم لیگ زیادہ تر موقع پرستوں پرمشتمل ہے لیکن وزیراعظم محمد خان جونیجو کی جانب سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات کے اعلان کے باوجود حکمراں جماعت بے نظیر بھٹو کی مقبولیت کامقابلہ نہیں کرسکتی۔