• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اپنے قارئین کو ایک نہایت اہم و تاریخ ساز واقعہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس ایک واقعہ نے انجانے میں پاکستان کی تاریخ بدل دی۔
1952 میں میٹرک پاس کرکے میں بھوپال سے بذریعہ کھوکھرا پار کراچی آیا۔ کیونکہ میں اگست میں آیا تھا اس لئے داخلہ نہ مل سکا اور میں نے اس دوران ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھ لیا، ٹائپنگ میری آئندہ زندگی میں بہت مفید رہی۔ اور جو خط میں نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو بھیجا تھا وہ میں نے خود ہی ٹائپ کیا تھا۔ میں نے اس وقت ہالینڈ میں ایک چھوٹا سا ٹائپ رائٹر خرید لیا تھا۔ اس وقت الیکٹرانک اور یادداشت اسٹور کرنے والے ٹائپ رائٹر نہیں آتے تھے اور اگر غلطی ہو جائے تو ایک سفید پٹی رکھ کر ان غلط حروف کو مٹایا جاتا اور پھر صحیح حروف ٹائپ کئے جاتے تھے۔ 1953میں ڈی جے سائنس کالج میں مجھے داخلہ مل گیا۔ یہاں سے B.Sc کرکے میں نے انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات کی سرکاری نوکری قبول کرلی۔ کام اچھا تھا، مختلف علاقوں میں لوگوں کو وزن میں ہیرا پھیری اور ناپ میں کمی سے روکنا ہوتا تھا۔ تین سال ملازمت کرکے میرا دل بھر گیا اور میری پرانی خواہش یعنی جرمنی سے انجینئرنگ کی ڈگری لینا جاگ اُٹھی۔
1961 میں مَیں جرمنی چلا گیا۔ پہلے ڈسل ڈارف میں پریکٹیکل ٹریننگ6 ماہ کی لی اور ساتھ جرمن بھی سیکھی اور پھر برلن جانے کا سوچا۔ مگر اس وقت کے آنے سے وہ جو 6ماہ کا وقت تھا وہ جہنم سے کم نہ تھا۔ اوّل تو یہ کہ دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے 16سال ہوئے تھے جرمنی کے بڑے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے، کوئی انگریزی بولنے والا نہ تھا، انگریزی اخبارات کا فقدان تھا اور ٹی وی پر کوئی انگریزی پروگرام نہیں دکھایا جاتا تھا۔ پھر ستمبر سے سردی کا موسم شروع ہوگیا اور کراچی کے رہنے والے کے لئے وہاں کی سردی، دھند، بارش اور برفباری ایک عذاب تھا۔ چند ہفتوں کے بعد میں سخت ذہنی دبائو کا شکار ہوگیا اور خود کو برابھلا کہنے لگا کہ اتنی اچھی آرام کی نوکری تھی، موسم اچھا تھا۔ پیارے دوست تھے ان کی یاد ستانے لگی۔ میں جو نوکری چھوڑ کر گیا تھا وہ جگہ خالی تھی اور میرے ساتھی بار بار مجھے بُلا رہے تھے۔ میری چھوٹی بہن اور میں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اس نے کہا کہ اگر پڑھ نہ سکو تو واپس نہ آنا وہیں نوکری کر لینا ورنہ یہاں لوگ طعنہ دیںگے۔ میں ہر اتوار کو ریلوے اسٹیشن چلا جاتا تھا اور وہاں سے لندن آبزرور (ہفتہ وار) خرید لیتا تھا اور پورے ہفتہ اس کو پڑھتا تھا۔ اس طرح دنیا کے حالات سے باخبر رہتا تھا۔ ایک روز میں نے اس میں نائیجیریا میں ایک گرامر اسکول میں سائنس ٹیچر کی آسامی کا اشتہار دیکھا یہ وہاں کے شہر بینن میں واقع اسکول کے لئے تھا۔ میں نے فوراً ان کو درخواست بھیج دی۔ خط جانے اور جواب آنے میں تقریباً دو ہفتہ لگ گئے لیکن جب خط آیا تو وہ تقرری کا خط تھا۔ اس وقت نائیجیریا اور گھانا میں پاکستان کے بہت سے افراد ملازمت کر رہے تھے اور پاکستانیوں کا اچھا تاثر تھا۔ انھوں نے مجھے تقریباً آٹھ ہزار نائیرے، فرنیچر سے آراستہ بنگلہ اور کار کے لئے ایڈوانس کی پیشکش کی۔ میں نے وہاں پاکستانی ہائی کمیشن سے اس تنخواہ کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتلایا کہ بہت اچھی ہے اور میں کافی سیونگ کر سکونگا۔ میں نے یہ پیشکش قبول کرلی اور اسکول کے ڈائرکٹر (مالک) نے مجھے ٹکٹ روانہ کردیا۔ میں نے سوچا کہ کم از کم برلن تو جاکر دیکھ لوں اور ٹیکنیکل یونیورسٹی کا نظارہ بھی کرلوں جہاں مجھے داخلہ ملا تھا اور وہ میرے خواب کی تعبیر تھی۔ میں ایک دن کے لئے برلن چلا گیا اور ساتھ دو اچھے تحفے (سنگ مرمر کا خوبصورت محل اور اُونیکس کی خوبصورت پلیٹ جس پر رنگین پتھروں سے اعلیٰ نقش کاری کی گئی تھی) لے کر پروفیسر ایچ اشٹارک کے گھر چلا گیا۔ سنیچر کا دن تھا یونیورسٹی بند تھی۔
وہاں ایک خاتون نے بتلایا کہ وہ شہرسے باہر گئے ہوئے ہیں اور پیر کی شام کو واپس آئیں گے۔ میں نے وہ تحفے اُن کو دیئے اور ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کر دیدیا۔ میرے پروفیسر اشٹارک سے بہت اچھے تعلقات تھے میں نے ان سے طویل خط و کتابت کی تھی۔ یہ غیرملکی طلبہ کے محکمہ کے انچارچ تھے اور ریاضی کے پروفیسر بھی تھے۔ میں نے ان کو خط میں لکھ دیا کہ یہاں کا ماحول میرے لئے مناسب نہیں ہے اور5 سال تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا، میں بہت تنہائی کا شکار ہوں اور میں نے نائیجیریا میں گرامر اسکول میں پڑھانے کی اچھی پیشکش قبول کرلی ہے اور دو تین ہفتوں میں براستہ لندن نائیجیریا (بینن سٹی) چلا جائونگا، لندن میں میرا نہایت عزیز دوست اقبال خان (آرکیٹکٹ) ہے اس کے پاس ایک ہفتہ گزارونگا۔ دو تین دن بعد مجھے پروفیسر اشٹارک کا خط ملا کہ میں فلاں تاریخ کو پیرس جا رہا ہوں اور بون کے ایئر پورٹ پر دو گھنٹے ٹھہرونگا اگر وقت ہو تو آکر مجھ سے مل لو۔ میں مقررہ دن اور وقت پر بون کے ایئر پورٹ پر پہنچ گیا۔ حسب ہدایت پروفیسر اشٹارک،میں ائیر لائن کے کائونٹر پر پہنچا اور ہوسٹس سے کہا کہ براہ مہربانی پروفیسر اشٹارک کے لئے اعلان کردیں۔ ہوسٹس نے مائیکرو فون پر دو تین بار پروفیسر اشٹارک کو آگاہ کیا کہ ان کا مہمان آگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک درمیانی قد کا شخص، نہایت خوبصورت، سنہری بال،60-55 سال کی عمر ہو گی، نے آ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور لیجا کر ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کافی کا آرڈر (مجھ سے پوچھ کر کہ کیا پینا ہے) دیدیا۔ پروفیسر اشٹارک نہایت نرم گو اور ہمدردانہ رویے کے مالک تھے۔ میں نے جانے کی وجہ بتلائی۔ انھوں نے کہا کہ فیصلہ میرا ہے اور میں ہی اس پر سوچ سمجھ کر عمل کر رہا ہوں مگر یاد رکھو کہ تم نے مجھ سے دو سال خط و کتابت کی اور اس اعلیٰ یونیوسٹی میں داخلہ لیا اور پاکستان سے یہاں تک آگئے اور جرمن زبان بھی سیکھ لی ہے۔ اگر نائیجیریا جائو گے ایک ٹیچر کی حیثیت سے تو ایک ٹیچر کی حیثیت سے ہی ریٹائر ہو گے اور تمھارا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ اگر برلن آتے ہو تو میں تمھیں وظیفہ دیدوں گا اور مجھے یقین ہے کہ تم ایک اچھے انجینئر بن جائو گے۔ ان کی بات اتنی مخلصانہ لگی کہ میں نے فوراً ان سے وعدہ کرلیا کہ میں نائیجیریا نہیں جائونگا اور مہینہ بھر بعد جب سمسٹر شروع ہوگا تو برلن پہنچ جائونگا۔ میں واپس ڈسل ڈارف گیا اور نائیجیریا خط لکھدیا کہ میں یونیورسٹی جارہا ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میں نہیں آرہا۔ میں نے ان کا ٹکٹ واپس کردیا۔ ایک ماہ بعد میں برلن چلا گیا۔ پروفیسر اشٹارک سے ملا انھوں نے ہوسٹل میں کمرہ دیدیا۔ وہاں لاتعداد ہندوستانی اسٹوڈنٹ تھے، بہت سے ایرانی بھی تھے اور پاکستان کے صرف ایک اسٹوڈنٹ اختر علی تھے جو الیکٹرانکس پڑھ رہے تھے۔ ہم جلد ہی بہت اچھے دوست بن گئے اور یہ دوستی اب تک گرم ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ کیلی فورنیا میں رہتے ہیں۔ پہلے دو تین سال میں پاکستان کا چکر لگا لیتے تھے اب کئی برسوں سے نہیں آئے۔ ان کی بیگم کے سگے بھائی برگیڈیئر افتخار احمد چوہدری ای ایم ای کے بہت لائق و قابل انجینئر تھے اور میں نے ان کو کے آر ایل میں اینٹی ٹینک وائر گائڈڈ میزائل بکتر شکن کا ڈی جی بنا دیا تھا اور انھوں نے آرمی کو ہزاروں میزائل بنا کر دیئے تھے۔ آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ پروفیسر اشٹارک سے ملاقات اور نائیجیریا نہ جانے کے فیصلہ نے بعد میں مجھے پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی کے لئے ایٹمی قوت بنانے کا وسیلہ بنا دیا۔ اگر میں نائیجیریا چلا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ ہم کو16دسمبر1971ءکی طرح کئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ پاکستان میں کوئی بھی ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا اہل تھا! شیخی باز اور جھوٹے دعویدار تو بہت تھے مگر کام کرنے والوں کا فقدان تھا۔ پاکستان زندہ باد۔

.
تازہ ترین