• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن کریم کلام الٰہی ہے اس کی آیت الہمزہ جس کا ترتیب میں نمبر 104ہے کی پہلی آیت میں حکم الٰہی ہو رہا ہے، ترجمہ۔بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو عیب ٹٹولنے والا اور غیبت کرنے والا ہو۔ آیت کریمہ میں ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں دونوں لفظ مل کر یہ معنی دیتے ہیں کہ اس شخص کی عادت ہی بن گئی ہے کہ وہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے کسی کو نسب کے طعنے دیتا ہے کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے کسی کے منہ پر چوٹیں کرتا ہے تو کسی کی پیٹھ پیچھے برائیاں کرتا ہے کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کر کے دوستوں کو لڑاتا ہے اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے لوگوں کے برے نام رکھتا ہے ان پر چوٹیں کرتا ہے ان کو عیب لگاتا ہے (تفہیم القرآن)۔
یہ بھی درست ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں فرشتوں سے نہیں اللہ رب کائنات نے انسان کی فطرت میں غلطی کا عنصر غالب رکھا ہے ساتھ ہی اس غلطی کے تدارک کے لئے توبہ و استغفار کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے، انسانی معاشرے میں ہر قول و فعل کی ایک حد ہوتی ہے اور جب ان مقررہ حدود کو پھلانگ لیا جائے تو پھر نہ اخلاقی اقدار نہ سماجی اقدار باقی رہتی ہیںپھر بد اخلاقی کے ساتھ ساتھ بد تمیزی، بے ادبی اور بے توقیری شروع ہوجاتی ہے پھر کچھ کہنے سننے کی حدود بھی ٹوٹ کر رہ جاتی ہیں پھر شرافت نجابت پر پانی پھر جاتا ہے گزشتہ کچھ دنوں سےچند برقی ذرائع ابلاغ پر تمام اخلاقی اقدار اور روا داریوں کا جنازہ نکل رہا ہے یا کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتقامی مہم چلائی جا رہی ہے ہر طرف ایک شور مچا ہوا ہے ہر کوئی اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہا ہے کچھ نے حکومت مخالفت میں کان بند کرلئے اور زبان دراز کر رکھی ہے کچھ نے بظاہر حکومت کی حمایت میں لیکن حکومت کے مخالفین کیلئے علم بلند کر رکھا ہے تو کچھ اپنی ذاتی مخالفت و مخاصمت کے باعث ان برقی ذرائع کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن انسان جس کی فطرت میں شیطان کا بھی دخل ہے بڑا فسادی اور منتقم ہے جب وہ کبھی انتقام پر اترتا ہے تو وہ اپنی عاقبت کو بھی بھول جاتا ہے بنا سوچے سمجھے تڑا تڑ بولتا ہی جاتا ہے چاہے اسے آگ کا دریا ہی کیوں نہ پار کرنا پڑے حالانکہ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والا خود بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے اگر کبھی اس کی کتاب کے ورق پلٹنا شروع ہوگئے تو سوچیں کیا ہوگا سینئر صحافیوںاور ایسے ہی دیگر محترم صاحبان صحافت کے بارے میں جس طرح اور برملا اظہار ناراضی کیا جا رہا ہے اس سے ان کی اپنی شخصیت پر پڑے پردے سرک رہے ہیںدوسروں کے چہروں پر سیاہی پوتتے ہوئے خود ان کے اپنے ہاتھ بھی تو اس سیاہی میں لت پت ہو چکے ہیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ سیاہ ہاتھ خود اپنے ہی چہرہ کو سیاہ نہ کرلیں یہ حکم الٰہی ہے جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے اس دنیا میں اور آخرت میں بھی بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اللہ نے نہ صرف عیب جوئی کی سخت ممانعت کی ہے اور سخت وعید بھی سنائی ہے اور اللہ نے اپنے بندوں کی غلطیوں خطائوں کی پردہ پوشی کا حکم فرمایا ہے۔ قرآن کریم تو اہل اسلام کا مکمل ضابطہ حیات ہے اس سے انحراف دین اسلام سے انحراف ہوسکتا ہے اسلام میں اور اسلامی نظام حیات کسی کی بھی زندگی کے بارے میں تجسس اور سراغ رسانی سے منع کرتا ہے اور اگر کسی طرح کسی کے عیب آپ پر واضح ہو بھی جائیں تو اس کو فاش کرنے کے بجائے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔
ویسے تو اظہار رائے پر کہیں بھی کسی پر کوئی پابندی نہیں لیکن آپ کچھ زیادہ ہی اپنی رائے کا استعمال کررہے ہیں ابھی تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔کون جانے کل کیا ہو، بزرگوں کا قول ہے کہ تلوار کا زخم تو بھر ہی جاتا ہے لیکن زبان کے لگائے زخم رستے ہی رہتے ہیں زبان ہی ہمیں بہشت کی طرف لے جائے گی اور زبان ہی ہمیں جہنم میں دھکیل دے گی علم دین میں انہوں نے یہ تو پڑھا ہی ہوگا یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ غیبت کرنا تہمت لگانا اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام کے مطابق کتنا بڑا گناہ ہے جو توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتا جب تک صاحب معاملہ جس پر تہمت لگائی یا جس کی غیبت کی ہو اس سے معاف نہ کرایا جائے، ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے یوم آخرت میدان حشر میں جمع ہونا ہے اور اپنے اعمال کا اپنے رب کو حساب دینا ہوگا کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم اس عارضی دنیا اور اس لمحاتی دنیا، جو سراسر ہماری امتحان گاہ ہے‘ میں رہتے ہوئے آخرت کو بھول کر دنیا کے پیچھے بھاگ کر اپنی دائمی زندگی کو کیسے جہنم رسید کر رہے ہیں کیسے اپنے ہی ہاتھوں اپنے لئے عذاب قبر عذاب حشر کا بندوبست کر رہے ہیں اس لئے ہی رب کائنات نے قرآن کریم میں بار بار بتا دیا ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے کیونکہ انسان دو دن کی دنیا کی زندگی کے حصول میں اس قدر اور اس طرح اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی آخرت و عاقبت کو سرے سے بھول ہی جاتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹنے میں لگ جاتا ہے اور موت کو بھول جاتا ہے جو کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے، اللہ تمام اہل ایمان کو روز محشر کی سختی اور عذابوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی دائمی زندگی کی بہتر تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

.
تازہ ترین