اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)سپریم کورٹ میں جاری آف شور کمپنیوں اور لندن اپارٹمنٹس سے متعلق سماعت کے دوران قلعہ اٹک کے خطرناک تہہ خانے کی تلخ یادوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔جہاں نوازشریف ، اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور مسلم لیگ (ن)کے دیگر رہنمائوں کو پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران رکھا گیا تھا اور راناثنااللہ پر بہیمانہ تشدد بھی کیا گیا تھا۔شاہد حامد نے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بتایا کہ’’اسحٰق ڈار سے کہا گیا تھا کہ جب تک وہ(شریف خاندان کے خلاف)اعترافی بیان نہیںدیں گے تب تک انہیں قلعہ اٹک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘ان کا کہنا تھا کہ وہاں قیدیوں خصوصاً سیاسی شخصیات کے لیے حالات بہت سنگین تھے، اس بارے میں خواجہ آصف سے جو کہ اب وزیر دفاع ہیں سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ قلعہ اٹک میں قیدیوں کو کس طرح رکھا جاتا تھا۔ظاہر ہے سیاسی قیدیوں کو سخت سیکورٹی کے حامل قلعہ اٹک میں اس لیے رکھا جاتا تھا، تاکہ ان کے حوصلوں کو توڑ کر ان سے اپنی مرضی کا اعترافی بیان لیا جاسکے۔12ا کتوبر 1999کومارشل لاء کے بعد بڑی تعداد میں لیگیوں کو اس خوفناک جگہ پر منتقل کیا گیا۔پنجاب کے وزیر قانون راناثنااللہ پر تشدد کرتے ہوئے ان کے بال اور بھنویں اتار دی گئیں۔یہ سب باتیں شاہد حامد نے اس لیے بتائیں تاکہ ان حالات کی وضاحت کرسکیں جس سے گزر کر اسحٰق ڈار نے اقراری بیان دیا تھا۔سپریم کورٹ بے شک ان حالات کا تجزیہ کرے گی جس کے سبب یہ اعترافی بیان دیا گیا اور اس کے وزیرا عظم اور ان کے بچوں کے مقدمے پر کس حد تک مثبت یا منفی اثرات پڑیں گے۔تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فوجی حکومت کے دوران انتہائی تشدد کا طریقہ کار استعمال کیا گیا تھا۔ایک حوالہ فورس کے ڈائریکٹر جنرل کا بھی دیا جاسکتا ہے جنہیں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا۔مشرف کے دور میں نیب نے جو حربے استعمال کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔خاص طور پر سیاستدانوں کے خلاف اینٹی کرپشن ایجنسی کہلوائے جانے والے ادارے کا طریقہ کار خاصا غیر انسانی تھا۔اس نے بنیادی طور پر سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کا کام کیا اور مسلم لیگ(ق) کے قیام میں بھی مددگار ثابت ہوئی۔یہ تاریخ کا وہ بدنما دھبہ ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا۔تاہم ، خواجہ آصف کی طرح کے سیاستدان بھی تھے جنہیں لمبے عرصے تک اٹک کے قلعے میں قید رکھا گیا، تاہم انہوں نے ہار نہیں مانی۔انہیں اور اسحٰق ڈار کو سبق سکھانے کی غرض سے پنجرے میں ڈال کر جیل منتقل کیا گیا۔ایک رپورٹ میں رانا ثنااللہ نے لکھا ہے کہ 12 اکتوبر کے بعد ہم لیڈر کے بغیر ایک ہجوم تھے، کوئی نہیں جانتا تھا کیا ہوچکا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔لوگ سینئر پارٹی رہنمائوں کی جانب دیکھ رہے تھے۔نومبر، 1999 کو بالآخر جب پارٹی ارکان اکھٹے ہوئے تو میں نے کہا، ہمیں لازمی طور پر سڑکو ں پر نکلنا چاہیئے، اتنی بڑی پارٹی ، اتنا بڑا مینڈیٹ اور کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا جو احتجاج کے لیے باہر آتا۔اگلے دن میں فیصل آباد میں گھر پر تھا۔میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور مجھے گرفتار کرکے لاہور لے جایا گیا ۔میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی اور میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔انہوںنے مجھے ٹانگ دیا اور منظم انداز میں مجھے پیٹنے لگے۔میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے۔مجھے مسلسل گالیا دی جارہی تھیں اور کہا جارہا تھا کہ میں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف بات کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ مجھے سیل میں ڈال دیا گیا اور 16 دن بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے غالب مارکیٹ لاہور میں اسٹبلشمنٹ مخالف پمفلٹ بانٹے ہیں۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔میں اب بھی ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ پمفلٹ کس نے تحریر کیے تھے۔یقیناً وہ میں نہیں تھا، تو پھر شاید آپ ہوں۔انہوںنے مجھ پر 124A لگائی، یعنی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنا۔پھر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔تین ماہ بعد مجھ عدالت نے رہا کردیا۔وہ پاگل پن جاری رہا، ہمیں پکڑا اور چھوڑا جاتا رہا۔جن لوگوں نے ہمیں چھوڑ دیا تھا وہ اب ہمارے پاس واپس آچکے ہیں اور میرے ساتھ کابینہ میں بیٹھتے ہیں۔لیکن 12 اکتوبر، 1999 سے اپریل ، 2000 تک ہمارے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ہم مکمل طور پر تنہا تھے۔میاں نواز شریف کو موت کی سزا کے بجائے عمر قید کی سزا دینے کے بعد لوگوں کی محتاط واپسی شروع ہوئی۔دنیا کی تاریخ میں شاید کسی بھی عدالت کو عمر قید کی سزا سنانے پر اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی۔ہم نے کلثوم نواز کو مبارکباد دی ، یہی وہ امید تھی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔رانا ثنااللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں 2002 کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کا منتخب رکن تھا۔2003 میں ہائوس میں ایک گرما گرم بحث کے دوران میں نے ازراہ تفنن کہا کہ قانون سازی کے بارے میں جنرلز کیا جانتے ہیں؟ ان کے لیے میں نے حد پار کرلی تھی۔8 مارچ ، 2003 کی شب مجھے ایجنسیوں نے اٹھا لیا اور فیصل آباد میں ایجنسی کے آفس لے گئے۔گھنٹوں مجھ پر تشدد کیا جاتا رہا۔انہوں نے میرے جسم پر کٹ لگا کر اس پر پٹرول لگایا، مارا پیٹا گیا، گنجا کردیا گیا، بھنویں اتار لی گئیں۔جب میں ان تمام درد کو سہہ چکا، تو مجھے موٹروے کے بائی پاس پر پھینک دیا گیا۔جب مجھے صبح سویرے ہوش آیا تو میں قریبی پیٹرول پمپ پر گیا، جہاں سے میں نے گھر فون کیا اور پھر گھر پہنچ گیا۔