اسلام آباد (انصار عباسی) وہ خود کو ایک وکیل اور آئینی ماہر کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں جس کا سیاست دان کے طور پر عوامی خدمت کا ایک نمایاں کیریئر ہے۔ لیکن ان کی تحریر کردہ کتاب ’’غیر مرئی اشخاص‘‘ (Invisible People) کی پہلی کہانی میں ان ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کا پرچار وہ اپنی پوری زندگی کرتے رہے ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی کی یہ کتاب مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ پہلی کہانی مقید قانون (Imprisoned Law) میں نظام کی نا انصافیوں کی عکاسی کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری حکومت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور ساتھ ہی بار اور بینچ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ مقید قانون ایک بوڑھی عورت کی کہانی ہے جو اپنے گمشدہ بیٹے، جسے پولیس نے اٹھا لیا تھا، کیلئے انصاف کے حصول کی راہ میں اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی ذہنی صلاحیت بھی کھو دیتی ہے لیکن اسے اپنا بیٹا نہیں ملتا۔ وہ ہر ایک سے سوال پوچھتی ہے کہ ’’توں قانون ایں، توں مجسٹریٹ ایں‘‘ لیکن اسے جواب نہیں ملتا۔ کہانی واقعی دل کو چھو لینے والی ہے۔ شاید یہ کہانی سیاستدانوں، قانون سازوں، وکلاء اور ججوں، جن کا تعلق ربانی کے خاندان سے ہے، کے ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ کہانی کے کچھ حصے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ’’۔۔۔۔۔ آصف کہتا ہے کہ ایک دن وہ لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی میز پر رینٹ کنٹرول کی عدالت کے باہر بیٹھا تھا۔ وہ آئی اور میرے ساتھ ہی بیٹھ کر مجھے گھورنے لگی۔ مجھے اس سے الجھن ہوئی لیکن جلد ہی میں نے دیکھا کہ اس کے سر میں کسی طرح کی حرکت نہیں تھی لیکن آنکھوں کی مدد سے وہ اوپر سے نیچے تک مجھے گھور رہی تھی۔ میں بوکھلا گیا۔ میں تھوڑا سے دور ہوگیا اور جلد ہی اس کا ہاتھ میری بائیں کلائی پر تھا، اس کے لمبے ناخن میری جلد میں پیوست ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ خوف کے عالم میں، میں وہاں سے ہل نہ سکا۔ وہ دیر تک مجھے گھورتی رہی اور پوچھا کہ توں قانون ایں، توں مجسٹریٹ ایں؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا عدالت کے قاصد نے میری جان چھڑائی اور تھوڑی کوشش سے مجھے اس کی گرفت سے آزاد کرایا۔ اُس نے اسے بتایا کہ اماں یہ نہ قانون ہے ور نہ مجسٹریٹ، اس کا تو اپنا کیس عدالت میں لگا ہے، چھوڑو اسے۔ وہ غصے میں اٹھی اور قاصد کو گھورتی رہی، پھر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ قاصد نے کہا، اس کی بات کا برا نہ ماننا صاحب، غریب بیچاری ذہنی توازن کھو چکی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں ۔۔۔۔ میں نے اسے کئی برسوں سے کچہری کے چکر لگاتے دیکھا ہے۔ وہ سب سے پہلے آتی ہے اور آخر میں جاتی ہے۔ جب بھی کتا گاڑی (قیدیوں سے بھری پولیس وین) کچہری آتی ہے تو یہ اس کی جانب دوڑتی ہے اور اپنے کمزور کندھوں کی مدد سے قیدیوں کے مرد ملاقاتیوں اور رشتہ داروں کو دھکے دیتی آگے بڑھتی ہے۔ کبھی کبھار وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات وہ توازن کھو کر پتھریلے فرش پر گر جاتی ہے۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور سر سے خون بہنے لگتا ہے۔ وہ کسی امید کے ساتھ کتا گاڑی سے نکلنے والے قیدیوں کو دیکھتی ہے جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو کہ کہیں ان میں اس کا بیٹا تو نہیں۔ وہ گاڑی کے بند ہوتے دروازوں کے پیچھے بھاگتی ہے اور اسے کھولنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن پولیس والے اسے دور ہٹا دیتے ہیں۔ وہ روتی ہے، چلاتی ہے، آہ و زاری کرتی ہے، ’’قانون کتھے وے، مجسٹریٹ کتھے وے۔‘‘ قاصد کے مطابق، اس بوڑھی عورت کے بیٹھے کو مقامی تھانے والے اٹھا کر لے گئے تھے کیونکہ اس نے پولیس والوں کو اس دکان سے مفت کا پھل دینے سے انکار کر دیا تھا جہاں وہ کام کرتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں ایک تھانے سے دوسرے جاتی ہے، لیکن ہر کوئی انکار کرتا ہے کہ انہوں نے اس کے بیٹے کو اٹھایا ہے، تاوقتیکہ وہ اس تھانے پہنچتی ہے جو پھل کی دکان کے قریب ہی ہے اور ایس ایچ او کے دفتر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر آہ و زاری کرتی ہے۔ اس چیخ و پکار کی وجہ سے میلے کچیلے اور موٹے پولیس افسر کا دھیان اس کی طرف جاتا ہے اور کہتا ہے وہ چور ہے، اس نے سائیکل چرائی ہے، اس سے کہو کہ وہ ہمیں سائیکل دے، ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ بوڑھی عورت حیرانی و پریشانی کے عالم میں اسے تکتی ہے۔ کہتی ہے، وہ چور نہیں ہے، اس کے پاس پیسے نہیں تو سائیکل کہاں سے آئے گی، آئو میرے ساتھ گھر چل کر خود دیکھو، کوئی سائیکل نہیں ہے، وہ معصوم ہے۔ پولیس والا اس کی طرف پیٹھ کر کے کہتا ہے، جائو صبح کچہری جا کے مجسٹریٹ کے سامنے اس کی بے گناہی ثابت کرو، ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ میں نے قاصد سے پوچھا کہ یہ بوڑھی عورت وکیل کیوں نہیں کرتی، کسی نے اس کی مدد کیوں نہیں کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے وکیل کرنے کے پیسے نہیں تھے۔ وہ ایجنٹوں کے چکر میں پھنس گئی جنہوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے بیٹے کو چھڑائیں گے۔ اس نے اپنا سب کچھ بیچ دیا حتیٰ کہ وہ اپنے بیٹے کیلئے انصاف حاصل کرنے کیلئے خود کو بیچنے پر بھی تیار ہوگئی، لیکن لگتا تھا کہ یہ سب کافی نہیں۔ اسی کوشش میں، ایجنٹوں نے اس سے اس کا سب کچھ چھیں لیا۔ اسے روشنی کا آسرا دیا گیا لیکن تاریک سرنگ کبھی ختم نہ ہوئی۔ جب بھی وہ ان ایجنٹس سے کہتی کہ وہ ان کے بتائے سارے خرچے پورے کر چکی ہے تو اس کا بیٹا کیوں رہا نہیں ہوا، تو وہ کہتے، اماں آپ سمجھتی نہیں، قانون کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، راستہ ہوتا ہے، جیسے ہی وہ پورا ہوگا وہ باہر آئے گا۔ ہر رات وہ جب اپنی جھونپڑی کو لوٹتی تو اس میں اتنی سکت نہ ہوتی تھی کہ وہ رسی کے بنے اسٹول پر بیٹھ سکے۔ وہ اپنے بیٹے کے خالی بستر کو گھورتی۔ ایسا لگتا تھا کہ بستر سے اس کے بیٹے کی خوشبو آ رہی ہے۔ اسے تنہائی، اکیلے پن اور لاوارث ہونے کا احساس ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جب اس کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا، وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، کیونکہ پچھتاوے اور ندامت سے خالی یہ سارا نظام امراء و اشرافیہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے تھا۔ پجیرو آتی اور روانہ ہوجاتی، لینڈ کروزر آتی اور جاتی۔ پولیس اور عدالتی عملہ اشاروں پر ناچتے نظر آتے۔ ہتھکڑیاں زمین پر گرتی نظر آتیں۔ کیس ہوا میں اڑ جاتے، انصاف ناپید معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ انتظار کرتی رہی، دنیاوی سامان سے محروم اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا کہ وہ اندھی ہو چکی تھی، اس کی نظریاں کچہری کے دروازے پر ٹکی ہوتیں، مجسٹریٹ اور قانون کو تلاش کرتیں جو اس کے بیٹے کو آزاد کراتے۔ دن مہینوں میں تبدیل ہوئے اور مہینے سال میں۔ وہ کچہری کے ہر نُکڑ اور کونے سے واقف ہوگئی لیکن اس کا بیٹا نظر نہ آیا۔ وہ بتاتی ہے کہ بچپن میں اسے بتایا گیا تھا کہ اللہ ہر سانس میں ہے، اسلئے اس نے قانون اور مجسٹریٹ کا ورد شروع کر دیا تاکہ وہ اسکی سن سکے اور اس کا بیٹا لوٹا دے۔ اپنی اس لگن میں وہ دیوانگی اور پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگی ۔۔۔۔۔ وہ مجرموں کو کالا کوٹ پہنے ایک شخص کے ساتھ کمرے میں جاتا دیکھتی جو بعد میں آزاد باہر نکلتے نظر آتے۔ تو اس نے سوچا کہ ممکن ہے کہ کالا کوٹ پہن کر وہ اپنے بیٹے کو چھڑا سکتی ہے، اس نے لنڈا بازار سے کالا کوٹ خریدا ۔۔۔۔ ہمارے بات کرنے کے دوران ایک چائے والا آیا، وہ اٹھی اور اس سے پوچھنے لگی، تو میرے بیٹے کو جانتا ہے اور اس کے بعد بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی کہ میں ماں ہوں، قانون امیر اور طاقتور کا ہے، مجھے نہ قانون ملا نہ مجسٹریٹ ملا۔ اس کی توں قانون ایں، تو مجسٹریٹ ایں کی صدائیں ایک بوڑھے شخص کی گونجتی صدا میں کہیں کھو گئی جو گا رہا تھا کہ ’’چل بُلہیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انّے نہ ساڈی کوئی ذات پُچھے نہ کوئی سانوں منّے۔ وہ بوڑھی عورت اس شخص کے پیچھے چل دی اور اس کے ساتھ ہی اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرنے لگی۔ وہ اپنا مقدمہ ایک اور عدالت میں لیجا رہی تھی، وہ عدالت اللہ کی تھی۔