گوتم بدھ کی جنم بھومی، قدیم تہذیب و ثقافت کے امین، کم وبیش تین کروڑ آبادی، جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے اہم رکن، مائونٹ ایورسٹ سمیت کوہ ہمالیہ کی دس میں سے آٹھ بلند ترین چوٹیوں والے ترقی پذیر ملک نیپال کو دنیا کی پگڑی کہا جائے تو ہرگز بے جا نہ ہو گا۔ 1814ء سے 1816ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطنت نیپال کے درمیان ہونے والی گورکھا جنگ کے خاتمے پر فریقین کے مابین سوگالی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے تحت نیپال کا کم وبیش ایک تہائی علاقہ برٹش انڈیا کا حصہ بن گیا۔ 21دسمبر 1923ء کو کٹھمنڈو کے سنگھا دربار میں شہنشاہِ نیپال اور ملکۂ برطانیہ کے مابین طے پانے والے ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے جس کے تحت نیپال کی آزاد اور خود مختار حیثیت تسلیم کر لی گئی۔ نیپال کی تاریخ میں اس معاہدے کو فیلڈ مارشل چندرا شمشیر جنگا بہادر رانا کی برطانیہ عظمیٰ کے ساتھ 25سالہ کامیاب سفارتکاری کا ثمر اور بہت بڑی کامیابی گردانا جاتا ہے۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں برطانوی سامراج کی ماتحت کالونی بننے کی بجائے نیپال برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک خود مختار وآزاد بفر اسٹیٹ کی حیثیت سے قائم رہا۔ 2008ء میں نیپال وفاقی پارلیمانی سیکولر جمہوریہ قرار پایا۔ تمام اطراف خشکی سے گھرے نیپال کو بحری تجارت کے لئے بھارت اور بنگلہ دیش پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران برٹش انڈیا کی جنگجو گورکھا رجمنٹ کے تاریخی پس منظر میں نیپالی افواج اقوام متحدہ کے بین الاقوامی امن مشن کی اہم حصہ ہیں۔
1947ء میں تقسیم ہند کے فوری بعد نیپال نے بھارت سے سفارتی تعلقات قائم کئے اور 1950ء میں دونوں کے مابین امن و دوستی کا معاہدہ طے پایا۔ تاہم 81فیصد ہندو آبادی اور اس وقت کی نیپالی قیادت کی بھارت نواز پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز قیام پاکستان کے 13برس بعد 29مارچ 1960کو ہوسکا۔ بین الاقوامی سیاست میں بھارت پر انحصار کم کرنے کیلئے نیپالی قیادت نے عوامی جمہوریۂ چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی طرح ڈالی۔ 1962ء میں پاکستان اور نیپال کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے ایک ضابطۂ کار پر دستخط ہوئے۔ 1963ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے نیپال کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ہاں اپنے باقاعدہ سفارتخانے قائم کئے۔ پاکستان نے نیپال کو سابقہ مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ کی بندرگاہ تک مفت تجارتی رسائی اور مواصلاتی سہولتیں فراہم کیں اور دونوں ممالک کے درمیان فضائی سروس کا آغاز ہوا۔ باہمی تجارت کیلئے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا معاہدہ کیا۔ یوں نیپال کا بحری و فضائی تجارت کیلئے بھارت پر انحصار کسی قدر کم ہوا۔
1982ء میں پاکستان اور نیپال کے درمیان باہمی تجارت کے سمجھوتے پر دستخط ہوئے تاہم دونوں کے مابین تجارت کا حقیقی حجم تاحال بمشکل ساڑھے تین ملین امریکی ڈالر سالانہ کے برابر ہے۔ سال 2005ء میں دونوں ممالک نے ٹیکسٹائل، تیل کی اجناس، کھانے کے تیل اور خوردنی اشیا کی تجارت اور باہمی سیر و سیاحت کے فروغ کی طرف توجہ دی۔ پاکستان کی طرف سے نیپال کو 5ملین ڈالر کے قرضے کی پیشکش کی گئی۔ دونوں ممالک جنوبی ایشیا کے آزادانہ تجارت کے معاہدے اور معاشی یونین کے رکن ہیں۔ نیپال اور پاکستان کے چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری نے مشترکہ کاروباری کونسلز قائم کر رکھی ہیں جن کا مقصد دونوں ممالک کے تجارتی حلقوں کو ایک دوسرے کے ہاں کاروباری مواقع کی تلاش میں سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ نیپال کیلئے تکنیکی امداد کے پروگرام کے تحت میڈیکل، دندان سازی، فارمیسی اور انجنئیرنگ کی اعلیٰ تعلیم کیلئے حکومت پاکستان نیپالی طلبہ کو سالانہ 15اسکالرشپ مہیا کرتی ہے۔ صرف پنجاب کے تعلیمی اداروں میں میڈیکل کالجوں کے تقریباً 50طلبہ سمیت 100کے قریب نیپالی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ علاوہ ازیں نیپالی طلبہ کم اخراجات کے ساتھ پاکستان کے مشہور تعلیمی اداروں سے بزنس ایڈمنسٹریشن اور آرٹس کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ نیپالی افواج کے کیڈٹس پاکستانی فوجی اداروں سے قلیل وطویل المدتی تربیت حاصل کر کے اپنے وطن میں عسکری خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستانی سول وعسکری اداروں میں زیر تربیت سینئر افسران باقاعدگی سے نیپالی تربیتی اداروں کے مطالعاتی دورے کرتے ہیں۔
1996ء تا 2006ء کی دہائی میں نیپالی حکومت کو مائو کمیونسٹ باغیوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں جیسے الزامات، امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کی طرف سے پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کا سامنا تھا۔ ان حالات میں پاکستان اور چین نے نیپالی حکومت کو باغیوں سے نمٹنے کیلئے اسلحہ اور عسکری تربیت فراہم کی تاکہ نیپال میں سول وار کے خاتمے، جمہوریت کی بحالی اور امن و استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ مشکل کی گھڑی میں پاکستانی و چینی امداد کی بنا پر نیپال اور پاکستان کے مابین تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی۔ پاکستان نے نیپال میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کا خیر مقدم کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نیپالی گورکھا کمیونٹی کے افراد کی ایک قلیل تعداد پاکستان میں آباد ہے جبکہ دوسری طرف تجارت، سرکاری ملازمت، کاروبار اور سیاست سے منسلک پاکستانی اور کشمیری نژاد خاندان سالہا سال سے دارالحکومت کٹھمنڈو اور تیرائی کے میدانی علاقوں میں آباد ہیں جو اردو، پشتو، کشمیری اور نیپالی زبانیں روانی سے بولتے ہیں۔
2015ء میں آنے والے 7.8شدت کے زلزلوں سے نیپال اور شمالی بھارت میں ہزاروں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کروڑوں ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ زلزلے کے فوری بعد حکومت پاکستان نے ایئر فورس کے چار سی ون طیاروں پر ایمرجنسی سازو سامان، زندگی بچانے والی ادویات، 30بیڈ کا موبائل اسپتال، کھانے پینے کی اشیاء، کمبل، خیمے، روزمرہ ضرورت کا سامان، خصوصی ریسکیو آلات، فوجی ڈاکٹروں اور پیرا میڈٖیکل اسٹاف پر مشتمل ٹیم کو امدادی سرگرمیوں کیلئے نیپال روانہ کیا۔ اس موقع پر بھارتی میڈیا نے پاکستانی غذائی امداد کے پیکٹوں میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا مسئلہ کھڑا کر کے نیپالی حکومت اور عوام کو پاکستان سے بدظن کرنے کی کوشش کی تاہم دوسرے ہی روز متاثرہ علاقے کا دورہ کرتے ہوئے نیپالی افواج کے سپہ سالار نے فوری امدادی کاروائیوں پر حکومت پاکستان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ کٹھمنڈو پاکستان کی امداد کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں علاقائی استحکام اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ہمالیہ کی چوٹیوں کے مشترکہ ورثا نیپال اور پاکستان کے مابین وسیع تر تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ معاشی، دفاعی، تعلیم و صحت، ٹیکنالوجی کی منتقلی، تجارت اور سیر وسیاحت کے شعبوں میں باہمی تعاون اور دوستی کے فروغ کیلئے دونوں ممالک کے امور خارجہ کے ماہرین، دانشوروں اور کاروباری طبقے کی طرف سے سنجیدہ کوششیں وقت کا اہم تقاضا ہیں۔
.