چارسدہ......باچا خان یونی ورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد چار سدہ میں ماحول سوگوار ہے۔ شہیدوں کے اہل خانہ کا غم ایسا ہے جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی کم پڑجاتے ہیں۔
سانحہ باچا خان یونی ورسٹی نے رنج و الم کی ایسی دردناک داستانیں رقم کی ہیں جو ہر آنکھ کو اشک بار کردیتی ہیں۔ شہدا کے اہل خانہ پیاروں کی جدائی کے صدمے سے نڈھال ہیں۔
انسان نما درندوں نے معصوم بچوں سے باپ کو ہمیشہ کے لیے جدا کردیا تو کسی باپ کو جوان بیتے کی جدائی کا وہ زخم دیا جو ساری زندگی ساتھ لگا رہے گا۔
معصوم بچوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ لیکن والدین کو بھی نہیں پتا کہ ان کی جوان اولادوں کو کس بات کی سزا دی گئی۔
دہشت گردی کا نشانہ بننے والے قوم کے معماروں کے جنازے اٹھے تو لواحقین کی سسکیاں تو تھیں ہی، ساتھ ہی اس بات پر فخر بھی تھا کہ اُن کے بچوں کو شہادت نصیب ہوئی۔
پہلے آرمی پبلک اسکول اور اب باچا خان یونی ورسٹی پر دہشت گردوں کے حملوں کا مقصد بندوق سے قلم کو دبانا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ قلم کی طاقت تلوار اور گولی سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہادر طلبہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں ، اس لیے دہشت گردی کے آگے علم کی شمع کبھی نہیں بجھے گی۔