برصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزاد وطن کی جدوجہد کو ایک واضح سمت دینے کا سہرا بلاشبہ نقاشِ پاکستان چوہدری رحمت علی بانی پاکستان نیشنل موئومنٹ کے سر جاتا ہے۔ ہندوستان پر انگریز کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ برطانوی اقتدار کے خاتمے کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کا آئین تشکیل دینے کیلئے جب ہندوستان کی تمام قومیتوں اور طبقات کے نمائندے 12نومبر1930 ء کو پہلی گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے تو کسی بھی مندوب نے ہندوستان کی تقسیم یا آزادی کی صدا بلند نہیں کی۔ستمبر1931 ء میں شروع ہونیوالی دوسری گول میز کانفرنس کے مسلمان شرکاء سے چوہدری رحمت علی نے بار بار ملاقاتیں کیں۔ اُنہیں باور کروانے کی بہت کوششیں کیں کہ ’’انڈین فیڈریشن‘‘ کی بنیاد پر مجوزہ دستور مسلمانوں کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوگا لہٰذا وہ ’’وفاقِ ہندوستان‘‘ کی بنیاد پر مستقبل کے آئینی ڈھانچے کو مسترد کردیں اور متبادل کے طور پر پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور کشمیر پر مشتمل ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی مملکت کا مطالبہ پیش کردیں لیکن اُس وقت ہندوستان پر ملکہ برطانیہ کے اقتدار کا سورج طمطراق کے ساتھ جلوہ گر تھا کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کیلئےعلیحدہ وطن کی آزادی کا تصور دیوانے کے خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ چوہدری رحمت علی نے مسلمان رہنمائوں کو قائل کرنے کیلئے اُن کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا اہتمام بھی کیا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
چوہدری رحمت علی کے اعلانِ آزادی’’اب یا کبھی نہیں‘‘ پر برطانوی پارلیمنٹ کی جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم مندوبین سے وضاحت چاہی گئی تو عبداللہ یوسف علی نے جواب دیا کہ ’’یہ ایک طالبعلم کی ا سکیم ہے کسی ذمہ دار شخص نے اِسے پیش نہیں کیا‘‘۔ سر ظفر اللہ خاں نے کہا کہ ’’یہ ایک طالبعلم کی اسکیم ہے ...یہ ایک تخیلاتی اور ناقابل عمل تجویز ہے اور اسکا مقصد چند صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام ہے‘‘۔ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے جھنجھلا کر جواب دیا کہ ’’یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ تاحال کسی ذمہ دار یا نمائندہ شخص یا تنظیم نے اس تجویز کی حمایت نہیں کی ہے‘‘۔ چوہدری رحمت علی کے مطالبہ کی بازگشت 8مئی1935 ء کو برطانیہ کے ایوانِ زیریں میں بھی گونجی جب رکنِ پارلیمنٹ Mr. Vyan Adamsنے اپنے خطاب میں چوہدری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔مجوزہ آئین کا مسودہ برطانوی پارلیمنٹ میں زیر بحث آیا تو چوہدری رحمت علی نے تمام ارکانِ پارلیمنٹ کے نام کھلا خط ارسال کیا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے تراجم جرمنی، فرانسیسی اور عربی زبان میں شائع ہونیوالے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کئے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنیوالے ’’انقلاب‘‘، ’’احسان‘‘ اور ’’طلوع‘‘ جیسے روزنامہ اخبارات نے چوہدری رحمت علی کی جدوجہد اور اُنکی تحریک ’’پاکستان نیشنل موئومنٹ‘‘ پر سیر حاصل مضامین اِس قدر تواتر کیساتھ شائع کئے کہ جب 1940ء میں ’’قرارِداد لاہور‘‘ منظور ہوئی تو ہندو پریس نے اِسے ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے نام سے منسوب کردیا۔
پاکستان کی شہ رگ جموں و کشمیر کا ذکر ہمیں خطبہ الہٰ آباد اور قراردادِ لاہور میں تو نہیں ملتا البتہ چوہدری رحمت علی کے وضع کردہ ’’پاکستان‘‘ میں لفظ ’’ک‘‘ کشمیر کی نمائندگی کرتاہے۔ انہوں نے حیدرآباد دکن کو ’’عثمانستان‘‘ کے نام سے الگ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔ وہ مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کو بھی ’’بنگستان‘‘ کے نام سے الگ ملک کے طور پر آزادی دلوانا چاہتے تھے۔ اُنکے تصور کے مطابق اِن تینوں ممالک کو ’’دولت مشترکہ اسلامیہ برائے دینیہ‘‘ کا حصہ بنناتھا۔ اُنہوں نے جنوبی ایشیاء میں مسلم آبادی والے کچھ دیگر علاقوں کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ وہ انڈیا کو ’’دینیہ‘‘ کہتے تھے۔ چوہدری رحمت علی کی جدوجہد کےبارے میں اُس دور میں ہندوستان ، یورپ اور عالم عرب کے اخبارات نے سیر حاصل مضامین شائع کئے۔ عالمی شہرت یافتہ تُرک ادیبہ خالدہ ادیب خانم نے 1937ء میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف ’’اِن سائڈ انڈیا‘‘ میں چوہدری رحمت علی کا طویل انٹرویو اور اُنکی جدوجہد آزادی پر تفصیلی باب رقم کیا۔ سر سکندر حیات خان نے خاکساروں کے ساتھ کشیدگی کے باعث چوہدری رحمت کو23مارچ1940 ء کے جلسہ میں شرکت کیلئے لاہور آنیکی اجازت نہ دی لہٰذا وہ 5فروری 1940ء کو کولمبو سے براستہ ممبئی، کراچی پہنچے جہاں انہوں نے ’’پاکستان نیشنل موئومنٹ‘‘ کی سپریم کونسل سے خطاب میں پاکستان کیساتھ ساتھ بنگال اور آسام کے مسلمانوں کی آزادی کیلئے جدوجہد کے عزم کا اعادہ کیا۔ کیبنٹ مشن پلان کو چوہدری رحمت علی نے ’’پُر فریب اور متعصبانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ چوہدری رحمت علی ’’3جون پلان‘‘ کے تحت پاکستان اور بنگستان کو ایک ملک بنانے نیز بنگال، پنجاب اور سندھ کی غیر منصفانہ تقسیم سے بہت رنجیدہ تھے۔اُنہوں نے کشمیر کے بغیر پاکستان کو ’’پاستان‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اکثریتی آبادی والے تمام علاقوں سے محروم کردینے کے نتیجہ میں ’’ایک مفلوج پاکستان وجود میں آئیگا‘‘۔چوہدری صاحب نے 3جون پلان کو مسترد کرتے ہوئے اِسے انگریز اور ہندو کی سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔ چوہدری رحمت علی 6اپریل1948ء کو اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان تشریف لائے، انہوں نے مملکت پاکستان کے استحکام نیز ہندوستان میں رہ جانیوالے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا۔ اخبارات میں انٹرویوز اوراُنکی سرگرمیوں پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا ۔ وہ حالات سازگار نہ پاتے ہوئے واپس انگلینڈ چلے گئے جہاں سے انہوں نے مسلمان مہاجرین کے قتلِ عام کی بابت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام احتجاجی مراسلہ ارسال کیا۔ وہ غیر منصفانہ تقسیم ہند اور کشمیر کی عدم شمولیت کے باعث پاکستان کو خطرات میں گھِرا ہوا محسوس کرتے تھے لہٰذا 28جنوری1950ء کو انہوں نے اپنا زندگی کا آخری اعلامیہ جاری کیا جس میں پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ چوہدری صاحب کو پاکستان پر اینگلو امریکن بلاک کا غلبہ قطعی ناپسند تھا۔ اُنکے خیال کے مطابق اسرائیل، امریکی خارجہ پالیسی کا محور ہے، جسے پاکستان تسلیم نہیں کرسکتا لہٰذا پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی اپنانی چاہئے۔تمام زندگی ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے وقف کردینے والے چوہدری رحمت علی مختصر علالت کے بعد 3فروری1951ء کو انتقال کرگئے۔ اسپتال میں علاج معالجے نیزتدفین کے اخراجات کیمبرج یونیورسٹی میں اُنکے اُستاد مسٹر ملبورن نے ادا کئے۔ سیسے کے تابوت میں بطور امانت تدفین اسطرح کی گئی کہ بعد ازیں اُنکی میت کو پاکستان میں لے جا کر دفن کیا جاسکے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے نزدیک نیوہم روڈ پر واقع عیسائی قبرستان کی ایک قبر نمبر B-8330منتظر ہے کہ اُس کے مکین چوہدری رحمت علی کے جسدِ خاکی کومرحوم کے ہموطن، اُس کے خوابوں کی سرزمین میں لے جا کر آسودہ خاک کردیں۔ اب وقت آپہنچا ہے کہ پہلے پاکستانی کا جسدِ خاکی نہایت عزت و احترام کیساتھ وطن لا کر اسلام آباد یا لاہور میں کسی مناسب مقام پر دفن کیا جائے۔