25؍دسمبر کو نریندر مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور آمد کے آٹھویں دِن (2جنوری کو) پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ ہوگیا۔ کامن سینس کی بات ہے کہ صرف ایک ہفتے میں دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعہ کی فول پروف پلاننگ اور کامیابی کیساتھ اس پر عملدرآمد ممکن نہیں، ایسی کارروائی کیلئے مہینوں درکار ہوتے ہیں۔ پٹھان کوٹ حملہ پاک، بھارت امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی تو اس کیلئے منصوبہ سازی اور تیاری کا آغاز مہینوں نہیں تو ہفتوں پہلے ہوا ہوگا، شاید تب سے جب پاک، بھارت تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم مودی کی قلبِ ماہیت یا ’’یوٹرن‘‘ کا اظہار شروع ہوا۔ پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی کا جناب نوازشریف کو اچانک جالینا، انہیں صوفے پر بٹھانا اور بے تکلفانہ سرگوشیاں کرنا، ایک دُنیا کو حیران کرگیا تھا۔ پھر بنکاک میں دونوں وزرا اعظم کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی ملاقات، دونوں کے پیشہ ورانہ پس منظر نے اس ملاقات کو مزید دلچسپ اور اہم بنادیا تھا۔ اجیت دوول کا تعلق بھارت کے حساس اِدارے سے رہا تھا۔ پاکستان کیخلاف اسکے شدید معاندانہ جذبات کے اظہار کیلئے اس کی وہ تقریر کافی تھی جس میں وہ ممبئی (نومبر2008) جیسے کسی اور واقعہ کی صورت میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کردینے کی دھمکیوں پر اُتر آیا تھا۔( یہ ’’ناراض بلوچوں‘‘ سے انڈین را کے سرپرستانہ روابط کا کھلا اعلان بھی تھا)۔وزیراعظم پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر عسکری پس منظر رکھتے تھے۔ اپنی سروس کے آخری برس اُنہوں نے پاک فوج کی سدرن کمانڈر کے سربراہ کے طور پر بلوچستان میں گزارے تھے اور یہاں انڈین را کی کارستانیاں ان پر پوری طرح واشگاف تھیں۔ بنکاک میں دونوں کی ملاقات کو پاک بھارت تعلقات پر جمی برف کے پگھلنے سے تعبیر کیا گیا۔ اسلام آباد کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شما سوراج کی آمد اس سلسلے میں ایک اور اہم قدم تھا اور پھر 25؍دسمبر کو مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور آمد ، یہاں اُنکا پرتپاک خیر مقدم، جاتی امرا جاکر میاں صاحب کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت اور ان کی نواسی مہرالنساء کی شادی کی مبارکباد۔اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات کیلئے 15؍جنوری کی تاریخ کا تعین۔
برصغیر کے افق پر تیزی سے منظر تبدیل ہورہا تھا کہ پٹھانکوٹ کا واقعہ ہوگیا۔ یہ پاک بھارت امن عمل کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ تھا تو اس کی تیاری شاید پیرس میں دونوں وزرااعظم کی ملاقات کے فوراً بعد شروع کردی گئی تھی لیکن اس بار اطمینان بخش بات اس واقعہ پر بھارتی حکومت کا ماضی سے برعکس ردّعمل تھا۔ بھارتی میڈیا اپنی پرانی روش پر قائم تھا، وہاں پتّہ بھی ہلے تو پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرادو، لیکن بھارتی حکومت اور حکمران بی جے پی کی قیادت پاکستان کے خلاف الزام تراشی سے گریزاں تھی بلکہ میڈیا کے تندوتیز سوالات کے جواب میں بھارت کے وزیردفاع پاکستان کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرتے نظر آئے۔ اُدھر 15جنوری سے شروع ہونے والے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات کے حوالے سے دونوں ملکوں کے دفاتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ باہم رضا مندی سے ملتوی ہوئے اور یہ بھی کہ مذاکرات کی نئی تاریخ زیادہ دور نہیں ہوگی۔ اِدھر بھارت کی مہیاکردہ ’’Lead‘‘ کے بعد پاکستان میں ’’جیشِ محمد‘‘ کے خلاف کارروائی کاآغاز کردیا گیا۔ جیش کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لیجانے اور اُنکے بھائی اور برادرِ نسبتی سمیت کارکنوں کی گرفتاریوں کی خبریں بھی آرہی ہیں۔جیش کے ’’دفاتر‘‘ اور مدارس سیل کئے جانے کی خبریں بھی ہیں لیکن بہاولپور کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ممتاز اخبار نویس اور معروف تجزیہ کار گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں بتا رہے تھے کہ ان کا اپنے علاقے میں آنا جانا رہتا ہے’’جیش‘‘ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد سے اُنہوں نے وہاں اس کا کوئی دفتر نہیں دیکھا۔ البتہ اس کا مدرسہ ضرور موجودہے، جسے مولانا مسعود اظہر کے بھائی مولانا عبدالرؤف چلارہے تھے۔ سنسنی پیدا کرنے کیلئے اِسے ’’قلعہ نما‘‘ قرار دیا جارہا تھا۔سیالکوٹ میں بھی اسی طرح کی کارروائی کی گئی۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے بقول، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مدارس واقعی دہشت گردی کی تربیت گاہ تھے۔ یہ کارروائی شک کی بناء پر کی گئی ہے، تحقیقات کے بعد ہی اصل صورتحال واضح ہوگی۔
اسکے ساتھ ہی ’’کالعدم تنظیموں ‘‘کا معاملہ ایک بار پھر زیربحث آگیا ہے۔ وہی پرانی بات کہ کالعدم قرار پانے کے بعد بھی یہ تنظیمیں نام بدل کر کیسے کام کررہی ہیں؟ نائن الیون کے بعد ان تنظیموں کو کالعدم قرار دیئے جانے کا معاملہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ ان میں بیشتر تنظیمیں جہادِ افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرتی رہی تھیں، وہاں سے فراغت کے بعد انکی ہمدردیاں کشمیری مجاہدین کے ساتھ ہوگئیں ، یہ ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ اسٹیٹ آف پاکستان کی حکمت عملی کا اہم حصہ تھے۔
جہاں تک فرقہ ورانہ تنظیموں کا معاملہ تھا، ان کا افغان جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ انقلابِ ایران اور اسکے بعد ایران عراق جنگ کا شاخسانہ تھیں، جو یہاں اپنے اپنے سرپرستوں کی ’’پراکسی وار‘‘ لڑ رہی تھیں۔ کچھ ایسی تنظیمیں بھی تھیں جن کا عسکریت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ رفاہی و فلاحی کام کرتی تھیں۔ انہیں آپ اسلامی این جی اوز کہہ لیں۔ نائن الیون کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ کشمیر اور افغان پالیسی بھی بدل گئی۔ڈکٹیٹر ، واشنگٹن سے آنے والی کولن پاول کی ٹیلیفونک کال پر ڈھیر ہوا تو اُدھر سے آنے والا ہر حکم، واجب التعمیل قرار پایا چنانچہ وہاں سے جس بھی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا حکم آتا اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا۔ ان ہی دنوں ایک دلچسپ معاملہ ’’رابطہ ٹرسٹ‘‘ کے حوالے سے ہوا۔ یہ ٹرسٹ جنرل ضیاالحق کے دور میں رابطہ عالمِ اسلامی کے اشتراک سے قائم ہوئی تھی، جس کا مقصد بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی واپسی اور اس کیلئے وسائل کی فراہمی تھا۔ صدرِ پاکستان ’’بربنائے عہدہ‘‘(ex officio) اس کے سرپرست ہوتے۔اب کالعدم قرار پانیوالی تنظیموں میں رابطہ ٹرسٹ بھی شامل تھی( جسکے سرپرست ان دِنوں خود پرویز مشرف تھے) ۔
فرقہ ورانہ عسکری تنظیمیں باہم جنگ وجدل سے تھک چکی تھیں لیکن انہیں اپنے اپنے انتہا پسندوں کے داخلی دباؤ کا سامنا تھا۔ کالعدم قرار پانے کے بعد ان کے ’’امن پسندوں ‘‘ نے سکھ کا سانس لیا۔ البتہ انتہا پسندوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ سپاہ صحابہ کے انتہاء پسند ، لشکرجھنگوی کے نام سے الگ ہوگئے اور پاکستانی طالبان کا حصہ بن گئے۔ باقی ماندہ عناصر نے جماعت اہلسنت بنالی اور ’’بُلٹ ‘‘ کی بجائے ’’بیلٹ‘‘ کے ذریعے تبدیلی کے علمبردار ہوگئے۔مسعود اظہر کبھی ہمارے’’اثاثوں‘‘ میں شمار ہوتے تھے۔ وہ فروری 1994ءمیں مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہوگئے۔ اُن کا تعلق حرکت المجاہدین سے تھا۔ انکی رہائی کیلئے انکے ساتھیوں نے کھٹمنڈو سے بھارتی طیارہ اغوا کیا اور اِسے قندھار لے آئے(تب وہاں طالبان کا راج تھا)۔ بھارت نے اغوا شدہ طیارے اور یرغمال مسافروں کی بازیابی کیلئے مسعود اظہر(اور ان کے ساتھ عمرشیخ اور مشتاق زرگر)کی رہائی کی شرط قبول کرلی۔ مسعود اظہر کی پاکستان واپسی، ہیرو کی واپسی تھی۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے حرکت المجاہدین سے الگ ہوکر’’جیش محمد‘‘ قائم کرلی۔ ایک عرصے سے وہ گمنام سے ہو کر رہ گئے تھے۔ اب پٹھان کوٹ کے حوالے سے انہیں تحقیقات کا سامنا ہے تو اُمید کی جانی چاہیے کہ عدل وانصاف کے تقاضے ضرور پورے ہوں گے۔ لیکن کالعدم تنظیموں کے حوالے سے اس پہلو پر ضرور غور کیا جانا چاہیے کہ اِن کے جو وابستگان امن کی راہ پر واپس آگئے، انہیں دیوار کے ساتھ نہ لگایاجائے۔ تنظیمِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کی حکمتِ عملی اسی لئے اپنائی گئی تھی۔ ’’ناراض بلوچوں‘‘ کے بارے میں بھی یہی پالیسی ہے کہ وہ امن کی راہ پر واپس آجائیں(اسکے بعد انہیں 5لاکھ سے 15لاکھ تک کا پیکج بھی دیا جارہا ہے)تو جو لوگ خود ہی راہِ راست پر آچکے تھے اور جو پُرامن زندگی گزار رہے تھے، انہیں دہشت گردوں کے ’’سلیپنگ سیلز‘‘ پر قیاس نہ کیا جائے۔