• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں دبئی کی اس نشست کو کبھی نہیں بھول پائوں گا جب فخر پاکستان شاہد آفریدی،پشاور زلمی کے روح رواں جاوید آفریدی اور خالد آفریدی مل کر ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ڈیرین سیمی اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان آنے اور لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے پر آمادہ کررہے تھے۔ سب مل کر ان کو بتارہے تھے کہ پاکستان دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ محفوظ ہے لیکن اس کا امیج حد سے زیادہ خراب کردیا گیا ہے۔ جاوید آفریدی ان کو بتارہے تھے کہ جب آپ ائیرپورٹ سے اسٹیڈیم کی طرف جائیں گے تو آپ کے آگے جاوید آفریدی ہوگا، پیچھے شاہد آفریدی ہوگا، دائیں جانب خالد آفریدی ہوگا اور بائیں جانب سلیم صافی ہوگا۔جاوید بتارہے تھے کہ ڈیرین! ہم پختون پاکستانی ہیں اور اس روز ہم چاروں بھائی آپ کے سیکورٹی گارڈ ہوں گے۔ جواب میں ڈیرین سیمی بھی جذباتی ہوگئے۔ ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک نمایاں ہوئی۔ ایک ہاتھ شاہد آفریدی اور دوسرا جاوید آفریدی کے کاندھے پر رکھ کر کہنے لگے کہ آپ لوگ بھائی ہیں۔ آپ کا ملک میرا ملک اور آپ کی عزت میری عزت ہے۔ آپ لوگوں کی زندگیوں سے میری زندگی زیادہ اہم نہیں۔ کچھ بھی ہوجائے تو آپ اور آپ کے ملک کے لوگوں کی خوشی کے لئے میں ضرور لاہور جائوں گا۔ ڈیرین سیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر پشاور زلمی کی ٹیم فائنل میں نہ پہنچی تو بھی وہ سب لاہور جائیں گے اور لائق تحسین ہے ان کا جذبہ کہ آخری وقت تک اپنے وعدے پر قائم رہے۔ جاوید آفریدی سیمی فائنل کے فوراً بعد لاہور پہنچے جبکہ باقی ٹیم نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب لاہور پہنچنا تھا۔ اس دوران بھی سازشیں عروج پر تھیں اور ہندوستان سمیت مختلف پاکستان دشمن لابیاں پھر بھی ہر حربہ استعمال کررہی تھیں کہ غیرملکی کھلاڑی پاکستان نہ جائیں۔ عمران خان صاحب کے اس بیان کہ لاہور میں فائنل کھیلنا پاگل پن ہے، کو انہیں ڈرانے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کررہی تھیں۔ انڈین لابی ان کے بیان کے اس حصے کو انگریزی ترجمے کے ساتھ کرکٹ کے عالمی کھلاڑیوں کو بھجوارہی تھی لیکن ڈیرین سیمی اور ان کے ساتھی قول کے سچے او روعدے کے پکے نکلے۔جاوید آفریدی پریشان تھے اور واٹس ایپ کے ذریعے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ دبئی سے لاہور روانگی سے قبل ڈیرین سیمی اور مارلن سیموئل نے جو جذباتی آڈیو مسیجزجاوید آفریدی کو بھجوائے وہ میرے موبائل فون کی لائبریری کا سب سے قیمتی ذخیرہ ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ ہم آپ لوگوں کی طرح اپنے الفاظ کی لاج رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم نے اپنے گھر والوں کو بتادیا ہے کہ پاکستان میں ہمارے بھائی ہمارا خیال رکھیں گے اور ہم آپ کے ہاں خوشیاں لانے کے لئے ضرور آئیں گے۔ پھر وہ تاریخی لمحہ آیا جب رات گئے ہم انہیں لاہور میں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ آئے، پاکستانیوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر گئے اور واپس چلے گئے۔
کرکٹ کے کھیل کو جس طرح ہم نے قومی بخار بنا دیا ہے، میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں۔ اپنی رائے یہ ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہئے نہ کہ وہ وبا بن کر پوری قوم کے سروں پر مسلط ہوجائے۔ میں شہریار خان اور نجم سیٹھی جیسے غیرکرکٹر کے کرکٹ پر مسلط ہونے کے حق میں بھی نہیں اور کرکٹ کی بنیا دپر وزارت عظمیٰ طلب کرنے کے بچپنے کا بھی حامی نہیں۔ کرکٹ کی وجہ سے جس طرح دیگر کھیلوں کی حق تلفی ہورہی ہے میں اسے بھی ظلم سمجھتا ہوں۔ کرکٹ میں میری حالیہ دلچسپی کی دو بنیادیں ہیں۔ایک جاوید آفریدی، شاہد آفریدی، جاوید میاں داد اور شعیب اختر کے ساتھ دوستی اور دوسرا یہ کہ چونکہ میری قوم کو اس کھیل میں حد سے زیادہ دلچسپی ہوگئی ہے، اس لئے ان کی دلچسپی کی خاطر مجھے بھی دلچسپی لینی پڑرہی ہے۔ تاہم اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اب کی بار پی ایس ایل پاکستان کے لئے رحمت ثابت ہوئی ہے۔ اس نے پاکستانی قوم کو نئی زندگی دی۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لے آئی اور سب سے بڑھ کر اسے ایک بنا دیا۔ شاید اس میں بھی اللہ کی حکمت تھی کہ فائنل تک کوئٹہ اور پشاور پہنچے اور میزبانی کا شرف لاہور کو حاصل ہوا۔ پنجاب اور لاہور کے باسیوں نے جس طرح کوئٹہ اور پشاور کی ٹیموں کو اپنا سمجھ کر اپنایا۔ جس طرح ان کی جیت کو منایا، اس نے اہل پنجاب کی وسیع القلبی، وسیع الظرفی اور پاکستانیت کو ایک بار پھر نمایاں کردیا۔ گزشتہ دنوں جاگ پنجابی جاگ، تیرے پگ نوں لگ گیا داغ،کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کے بعض اقدامات کی وجہ سے جو نفرتیں پھیل گئی تھیں، ان کو پنجاب کے عوام نے دفن کردیا۔ شاہد آفریدی اور جاوید آفریدی کے لئے محبت کے جو جذبات لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں دیکھے، وہ شاید پشاور،کراچی اور کوئٹہ میں بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔ لاہور آنے سے ایک روز قبل مجھے پشاور میں فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تقریب سے خطاب کا موقع ملا تھا۔ وہاں پر پختونوں اور فاٹا کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے بعض مقررین نے پنجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس کے جواب میں اپنی تقریر میں اس عاجز نے اپنے قبائلی اور پختون بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مجرم پنجاب نہیں بلکہ اشرافیہ اور لیڈر ہیں۔ عرض کیا کہ پختونوں کی بدحالی میں پختون لیڈروں کا اور بلوچوں کی بدحالی میں بلوچ لیڈروں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔ جو اپنے بچوں کو تو بیرون ملک یا لاہور کے ایچی سن میں پڑھاتے ہیں لیکن عام پختونوں اور بلوچوں کے لئے تعلیم کا انتظام نہیں کرتے۔ خود تو ہر پنجابی حکمران کے ساتھ مک مکا کرکے بیٹھ جاتے ہیں لیکن پختونوں اور بلوچوں کو پنجاب سے متنفر کرتے ہیں۔ عرض کیا کہ اس وقت پختونوں اور بلوچوں کے ساتھ سب سے زیادہ تعصب کا مظاہرہ موجودہ حکومت کررہی ہے۔ ان کی پالیسیوں میں عام پنجابی کا کوئی ہاتھ نہیں۔ وہ بھی اسی طرح محروم ہے جس طرح کہ پختون، سندھی، مہاجر یا بلوچ محروم ہے لیکن پنجاب کے خلاف سب سے زیادہ نفرت پھیلانے والے ایک پختون قوم پرست اور بلوچ قوم پرست اس حکومت کا حصہ ہیں اور وہ موجودہ حکومت کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو پنجاب صرف متعصب اشرافیہ کا نام نہیں۔ پنجاب میں تو سرائیکی بھی رہتے ہیں جو ہر کسی سے زیادہ مظلوم ہیں۔ پنجاب کی وسیع القلبی کا تو یہ عالم ہے کہ اس نے اپنی آغوش میں بلوچ، پختون، سندھی اور کشمیریوں کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور کبھی عوامی سطح پر کسی نے کسی پنجابی کے ماتھے پر شکم نہیں دیکھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ صرف ایک روز بعدپنجابیوں نے اپنے پختونوں کے سامنے کئے گئے میرے اس دعوے کو حرف بحرف درست ثابت کردیا۔ فائنل کوئٹہ اور پشاور کے مابین ہورہا تھا اور بھنگڑے پنجابی لاہوری ڈال رہے تھے۔ پنجاب پولیس نہ صرف امن و امان کا بہترین انتظام کررہی تھی بلکہ پختونخوا اور بلوچستان سے آئے ہوئے مہمانوں کی خصوصی عزت افزائی بھی کررہی تھی۔ وہ پولیس والے جن کو کچھ روز قبل پختونوں کی پروفائلنگ پر مجبور کیا گیا، آج پختونوں کے ساتھ سیلفیاں بنارہے تھے۔ یہی اصل پنجاب ہے اور یہی اصل پاکستان ہے۔

.
تازہ ترین