• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ولادیمیر لینن نے کہا تھا کہ سامراجیت سرمایہ داری کی بلند ترین منزل ہے۔ اس کی تفسیر یوں کی جاتی تھی کہ جب سرمایہ دار ملکوں میں منافع کی شرح کم ہونے لگی تو اس نے بیرونی دنیا کا رخ کیا اور بہت سارے ملکوں پر نوآبادیاتی نظام نازل کردیا۔ بعد میں جب دوسری جنگ عظیم کے بعد اکثر نو آبادیاتی ملک آزاد ہو گئے تو اسی کلیے سے یہ مراد لی گئی کہ سرمایہ کار ملک بالواسطہ اپنی پرانی نوآبادیات کا گماشتہ سرمایہ داری کی ذریعے استحصال کر رہے ہیں جسے سامراجیت کا نام دیا گیا۔ لیکن سرمائے کا اصل بہاؤ بیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوا جب صنعتی ملکوں کے سرمایہ کاروں نے ترقی پذیر ممالک میں براہ راست سرمایہ کاری شروع کی۔ امریکی اور یورپی سرمایہ داروں نے زیادہ منافع کے لئے چین، ہندوستان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں میں اپنی صنعتیں منتقل کرکے سستی پیداوار صنعتی ملکوں کے صارفین کو مہیا کرنا شروع کی۔ اس سے دنیا کے معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل گلوبلائزیشن ہے جس میں دنیا میں بہت سی نئی دولت بھی پیدا ہوئی ہے اور دولت کی تقسیم نو بھی ہوئی ہے۔ گلوبلائزیشن نئی ٹیکنالوجی اور بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے وجود میں آئی۔ ذرائع ابلاغ و نقل و حمل کا نظام وسیع تر ہوا ہے اور جغرافیائی فاصلے سکڑ گئے ہیں۔ اب مغربی سرمایہ داروں کے لئے ایشیا یا افریقہ میں سرمایہ کاری کرنا آسان ہو گیا ہے۔ چنانچہ سرمایہ ان ملکوں کی طرف منتقل ہوا ہے جہاں پیداواری لاگت کم از کم تھی (ہے)۔ پیداواری لاگت میں سب سے بڑا حصہ اجرتوں کا ہے اور ظاہر بات ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک میں اجرتوں کی سطح کافی کمتر ہے۔ لہٰذا امریکہ کی پیداواری صنعتیں دھڑا دھڑ چین جیسے ممالک میں منتقل ہوئی ہیںجہاں اجرتوں کی سطح امریکہ سے کہیں زیادہ کم تھی۔ اس سے دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں صنعتی اور تجارتی انقلاب رونما ہوا ہے۔
اٹھارہویں صدی سے بیسویں صدی کے وسط تک نوآبادیاتی نظام قائم تھا جس میں یورپ کے صنعتی ممالک نے مختلف ملکوں پر قبضہ کرکے ان کے وسائل کو اپنے ممالک میں منتقل کیا۔ اس سے نوآبادیات کا استحصال بھی ہوا لیکن بہت سے علاقوں میں ریلوے اور دوسرے یورپی اداروں کے پھیلاؤ سے نیا درمیانہ طبقہ بھی پیدا ہوا۔ اس درمیانے طبقے نے نوآبادکاروں کے خلاف آزادی کا علم اٹھایا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اکثر ممالک آزاد ہو گئے۔ لیکن ان ملکوں کی آزادی ادھوری تھی کیونکہ نیم نوآبادیاتی نظام کے ذریعے مغرب اور امریکہ نے بالواسطہ سرمایہ دارانہ استحصال جاری رکھا: مختلف معاشروں میں اس سامراجیت کے خلاف قومی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والی گلوبلائزیشن سے نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ اب غریب ملکوں کی بجائے امیر ترین ممالک ( امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ) میں قوم پرست تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ تحریکیں نسل پرستی کے عوامل کے زیر اثر تنگ نظر سیاسی و سماجی نظام کے قیام کے لئے کوشاں ہیں : ان میں سے زیادہ تر قوم پرست تحریکیں نوآبادیاتی دور کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کی دعویدار ہیں۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے نکل کر اپنی اچھوتی شناخت ڈھونڈنے کا عمل عظمت رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہے۔
گلوبلائزیشن کا عمل نوآبادیاتی نظام کئی پہلوئوں سے مختلف ہے۔ گلوبلائزیشن کے عمل میں پیداواری ٹیکنالوجی وسیع پیمانے پر نئے ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اب چین صنعتی پیداوار میں دنیا میں چوٹی کا ملک بن چکا ہے۔ بعض پیمائشوں کے مطابق چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اگر روایتی پیمائش کے طریقے بھی استعمال کئے جائیں تو چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ کچھ اعلیٰ ٹیکنالوجی میں اب بھی امریکہ کا پلہ بھاری ہے لیکن چین تیزی سے امریکہ کے مقابلے کی طاقت بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان بھی جس رفتار سے ترقی کررہا ہے وہ بھی دنیا کی تیسری چوتھی معیشت کا درجہ حاصل کر لے گا۔ بلکہ اگر موجودہ رجحانات قائم رہے تو پاکستان بھی تقریباً دو دہائیوں میں دنیا کی اٹھارہویں معیشت بن جائے گا۔ اس سارے پس منظر میں دیکھیں تو دنیا میں معاشی اور سیاسی نظام کی ترتیب نو ہو رہی ہے جس میں کچھ ممالک پیچھے رہ جانے کے خوف میں مبتلا قوم پرستی کی تحریکوں کو جنم دے رہے ہیں۔
مندرجہ بالا سیاق و سباق میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی قوم پرستی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ہر میدان میں ہار رہا ہے۔ امریکہ کا تجارتی خسارہ بڑھ رہاہے۔ اس کی بہت سی صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کی کچھ سابقہ صنعتی ریاستوں میں مزدور طبقے کی آمدنیوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ مشرق وسطی اور افغانستان کی جنگیں جیت نہیں رہا۔ غرضیکہ ان کے خیال میں امریکہ تباہ حالی اور تنزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے وہ ایک طرف تو سرمائے کی گلوبل نقل و حرکت کو روکنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف امریکی فوج کو مزید مضبوط بنا کر دنیا کو اپنی شرائط پر چلانا چاہتے ہیں۔
گلوبلائزیشن سے انسانوں کی منتقلی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر ملک میں لوگ دیہات چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ مزدور طبقہ بہتر روزی کی تلاش میں کسی بھی ملک منتقل ہونے کے لئے تیار ہے۔ برصغیر سے مشرق وسطی کی طرف تارکین وطن مزدوروں کی منتقلی جاری و ساری ہے۔ میکسیکو اور جنوبی امریکہ کے دوسرے ممالک سے امریکہ کی طرف منتقلی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ امریکہ کی چند ریاستوں میں ہسپانوی نسل کے لوگوں کی اکثریت ہو چکی ہے۔ مشرقی یورپ سے بھی مزدوروں کی ایک بہت بڑی تعداد وسطی یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں بس چکی ہے۔ اس سے مقامی مزدوروں کی اجرتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سفید فام اکثریت میں خدشات نے جنم لیا ہے کہ اگر معاملات اسی طرح سے چلتے رہے تو چند دہائیوں میں یورپی نسل کے سفید فام اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو دنیا میں نئی طرح کی آبادیوں کا اختلاط جاری ہے جس کے خلاف سفید فام قوم پرست تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔



.
تازہ ترین