• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرٹ کا بار بارقتل کرنیوالوں کا بھی کبھی احتساب ہوگا؟

سرکاری افسران کی ترقیوں کے معاملہ میں ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی ’’فیورٹ ازم‘‘ کا کھیل کھیلا گیا‘ سی ایس بی 2016ء کی سفارشات کو خاطر میں نہ لانے کی پی ایم آفس کی حماقت پر میڈیا پیہم تنقید کے نشتر برسا رہا ہے‘ حیرت ہے کہ کس طرح ایک ’’مہا منشی‘‘ اپنی پسند ناپسند کے مطابق اہم ترین بیورو کریٹوں کے اعمالنامے سیاہ و سفید کررہا ہے۔ جن 400 کے قریب افسران کو ترقیاں دی گئیں ،ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں سلیکشن بورڈ نے نامزد نہیں کیا تھا اور جن 94 مظلوموں کو برے اعمالناموں کا بہانہ بناکر ڈراپ کیا گیا، ان کے بارے میں دراصل ایک کہانی گھڑی گئی ہے کہ آئی بی نے ان افسران کی رپورٹیں منفی دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم اس ساری صورتحال سے بے خبر ہیں تو پھر وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ کیلئے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دیکھا جائے تو وزیراعظم کے ’’میر منشی‘‘ نے اس سارے معاملہ میں بالواسطہ شہادتوں اور سماعی باتوں سے کام چلایا ہے حالانکہ حالیہ مظلوم افسران کے کردار و کیریئر کی بابت ہم نے ذاتی طور پر چھان پھٹک کی ہے اور ان کے دفتری ساتھیوں اور حلقہ ہائے کار کے واسطہ داروں سے بھی معلوم کیا ہے جن کے مطابق ہم نے اکثریت کو مسلمہ دیانتدار ‘ عوامی ساکھ رکھنے، ایمانداری سے کام کرنے اور تنخواہ پر گزارہ کرنےوالے نیک نیت افسران ہی پایا لیکن انصاف کے جو اصول وزیراعظم نے متعین کررکھے ہیں، وہ محض خیالِ ضبط و وہم ہیں ٗ ان سے جملہ قواعد و ضوابط پسِ پشت ڈلوائے گئے ہیں۔ تصور کریں کہ جوڈیشل ٹرائل کی صورت میں94 میں سے کسی ایک کیس میں بھی وزیراعظم غلط ثابت ہوجاتے ہیں تو اصل گنہگار کون ہوگا، ’’میر منشی‘‘ یا وزیراعظم؟ وزیراعظم آفس کی ساری کارگزاری اتنی متناقص ہے کہ ان کے دعویٰ کے مطابق انہوں نے ایک ’’سپر بورڈ‘‘ منعقد کرکے معلومات حاصل کی تھیں جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں اور اس حیرت انگیز خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک ایسے آفیسر کو بھی (21ویں گریڈ میں) پروموٹ کیا، جسے چند دنوں بعد پروموٹر حضرات نے خود ہی کرپشن کے الزامات پر معطل کردیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم آفس کا نظام کوتاہیوں سے بھرپور ہے اور اُس نظام سے قطعی مختلف نہیں جس کا الزام اس نے سی ایس بی پر دھرا ہے۔ دوسری جانب چیئرمین سی ایس بی (جو ایک معزز اور بیباک آفیسر ہیں) نے ایک نجی محفل میں یہاں تک دعویٰ کیا کہ بورڈ کی روئیداد تبدیل کروانے کیلئے وزیراعظم کے ’’میر منشی‘‘ نے ان پر زبردست دبائو ڈالا۔ یہ تو بہرحال ایک منظم جرم ہے جس کی سزا یا تو چیئرمین ایف پی ایس سی کو دی جانی چاہئے یا وزیراعظم کے ’’میر منشی‘‘ کو۔ اب اس حقیقت کی شہادت کہاں سے لائی جائے کہ سی ایس بی کے 22گریڈ کے تمام 18 ممبران جنہیں موجودہ حکومت نے خود تعینات کیا اور ترقیاں دیں ، وہ سب غلط ہیں ،لیکن ’’کچھ ‘‘ تو ہے جہاں کچھ غلط ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ بورڈ کے سامنے 600 سے زائد نام رکھے گئے تھے جن میں سے 200 کیسز تکنیکی بنیادوں پر ملتوی کردیئے گئے ٗ اگلے 500 میں سے مزید 97 افسران کو موقوف کردیا گیا اور پوری تسلی کرلینے کے بعد لگ بھگ 400پروموشن کیسز وزیراعظم کو بھجوائے گئے ٗ وزیراعظم نے ان میں سے ایسے 94 افسروں کے نام حذف کردیئے جو ’’میر منشی‘‘ کی ’’خواہشات و توقعات‘‘ پر پورے نہیں اترتے تھے۔ 400 افسران کی سفارشات کی سمری (جن میں یہ 94 مظلوم بھی شامل تھے) بھیجتے ہوئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے یکم مارچ 2017ء کو وزیراعظم کو جو نوٹ لکھا ، اس میں کہا گیا، ’’بورڈ نے موزوں ریکارڈ، تجربے کے تنوع اور ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری کی سفارش کے تناظر میں افسران کی دیانتداری اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے 21ویں اور 20 ویں گریڈ کے مختلف آکوپیشنل گروپس کے عہدوں کیلئے ترقیوں کی سفارشات کیں۔‘‘ یہ سب مدنظر رکھتے ہوئے اب وضاحت میں کونسی کسر رہ گئی ہے ٗ اگر بورڈ متذکرہ افسران کی سفارشات مرتب کرنے میں 94مرتبہ غلطی پر تھا تو بورڈ کے تمام ممبران کو معزول کردیا جانا چاہئے اور اگر وزیراعظم کو ان کی ٹیم نے مِس گائیڈ کیا تو پھر اس نقصان کا ازالہ کون کرےگا؟ ہمیں نہیں لگتا کہ نواز شریف جیسے شخص کو کوئی گمراہ کرسکتا ہے کیونکہ ترقیوں کا کیس مکمل طور پر ’’فیورٹ ازم پلے‘‘ ہے جس میں کچھ مہرے ’’میر منشی‘‘ کے، تو کچھ وزیراعظم کے بھی ہوں گے، حکومت نے جو کرنا تھا سو کرلیا، اب بیورو کریٹوں کی عدم ترقیوں کا یہ کیس انصاف کے کٹہرے میں ہے، ہم لاوارثوں کو انصاف دینے والی عدالتِ عظمیٰ کے ججوں (جنہوں نے انصاف کا بول بالا کیا) کو سلیوٹ پیش کرتے ہیں اور ان افسروں کو بھی داد دیتے ہیں جنہوں نے اپنی حق تلفی سے چشم پوشی نہیں کی اور عدلیہ سے رجوع کرلیا لیکن جو مظلوم گھروں پر بیٹھے ہیں، ان کے بارے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کیساتھ وزیراعظم نے جو کیا صحیح کیا، کیونکہ جو اپنے حقوق کیلئے کھڑے نہیں ہوسکتے وہ قوم کے حقوق کیلئے کیا کھڑے ہوں گے۔ افسران کی ترقیوں کے کیسز ہر سال خراب کردیئے جاتے ہیں، اس طرح کے متعدد کیس مختلف عدالتوں میں ہیں، آج کل عدالتِ عظمیٰ افسران سے زیادتیوں اور ترقیوں کے معاملہ پر سخت نوٹس لے رہی ہے اور حکومت کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے رہی ہے، ایف بی آر کے گریڈ 21اور 22 کے افسروں کی ترقیاں کالعدم قرار دیکر ازسرِنو جائزہ کا حکم بھی جاری ہوچکا ہے، سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے بالآخر ان افسروں کو بھی انصاف فراہم کردیا ہے جو گزشتہ دو سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے تھے‘ حکومت کی وہ اپیل خارج کردی گئی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کی گئی تھی، سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے ثابت کیا ہے کہ ملک میں صورت حال اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ جس کے جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ افسروں کے میرٹ کا یہ قتل 2015ء سے شروع ہوا جب سنٹرل سلیکشن بورڈ میں وزیراعظم کے کچھ قریبی افسران کے کیس اس میں زیر غور آنے تھے جس میں وزیراعظم کے موجودہ ’’میر منشی‘‘ کا نام بھی تھا، اب سلسلہ یہ تھا کہ پی اے ایس میں21گریڈ کی سیٹیں کم تھیں اور ضروری تھا کہ ’’میر منشی‘‘ تک پروموشن کرنے کیلئے اوپر سے کچھ افسروں کی ’’قربانی‘‘ دی جائے، طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ سلیکشن بورڈ کو پانچ نمبروں کا اختیار دیا گیا جو حتمی فائق (اوور رائڈر) کی حیثیت رکھتے تھے یعنی اگر ایک افسر 90فیصد نمبر بھی لے لے اور سلیکشن بورڈ اسے کم از کم تین نمبر نہ دے تو وہ افسر ترقی نہیں پاسکے گا، چنانچہ وزیراعظم ہائوس نے 14ویں اور15ویں کامن کے ڈی ایم جی کے بہت سے افسر سلیکشن بورڈ سے کم نمبر دلوا کر پروموٹ نہ ہونے دیئے اور جب 14 ویں اور 15 ویں کامن کے بہت سے ڈی ایم جی افسران کا ’’قتلِ عام‘‘ ہوا تو باری ’’میر منشی‘‘ تک آپہنچی اور موصوف 21ویں گریڈ میں جاپہنچے اور22 ویں گریڈ کی ’’میر منشی‘‘ کی سیٹ پر قابض ہوبیٹھے، وہ افسران جو اچھا ریکارڈ رکھتے تھے اور ان کے خلاف کوئی درخواست تک نہ تھی، وہ بورڈ کے پانچ نمبروں میں سے ایک یا دو نمبر دیکر فیل کردیئے گئے، ان کے پاس اب واحد ذریعہ عدالتی چارہ جوئی کا ہی تھا، چنانچہ یہ افسران لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ گئے جہاں دونوں عدالتوں نے ان کے موقف کو تسلیم کیا اور پچیس تیس سالہ ریکارڈ پر پانچ نمبروں کی فوقیت کا فارمولہ مسترد کردیا۔ حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی تو معزز عدالت نے حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے 2015ء کا سی ایس بی سرے سے ختم کردیا اور حکم دیا کہ سی ایس بی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے اور وہ افسران جو پروموٹ کردیئے گئے ہیں اور جو پروموٹ نہیں کئے گئے کیساتھ ساتھ ان تمام کے کیسز بھی بورڈ کے سامنے رکھے جائیں۔ جن کے پاس ترجیحی پانچ نمبر نہیں ہوں گے۔ معزز عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ محض سنی سنائی پر کسی افسر کی ترقی نہیں روکی جائے گی اور اگر بورڈ کے سامنے کوئی چیز لائی جائے گی تو متعلقہ افسر سے اس کی جوابدہی کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائیگا وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ قبول نہ کیا اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جس کا فیصلہ اب آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 2015ء میں ترقی پانے اور نہ پانیوالے تمام افسران کے کیسز اب دوبارہ سی ایس بی کو بھیجے جائینگے اور وہ میرٹ کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کرے گا، موجودہ فیصلے سے جن چہیتے افسران کو زک پہنچی ہے اس میں ’’میر منشی‘‘ بھی شامل ہے، یہ بورڈ مئی 2015ء میں ہوا تھا اور ’’میر منشی‘‘ مئی 2017ء میں21گریڈ میں اپنے دو سال پورے ہونے پر 22 گریڈ میں جانے کو بیتاب تھا، مگر تقدیر کے فیصلے کلاکاروں کی چالاکیوں سے کہیں آگے ہیں، اب یہ پورا زور لگاکر ایسی تاویلیں گھڑیں گے کہ ان کا 21 گریڈ مئی2015 سے بچ جائے، لیکن اس ضمن میں سپریم کورٹ کا حکم واضح ہے۔ اب اصولاً ان کی ترقی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جانا چاہئے تاکہ یہ ان لوگوں کے مساوی ہوجائیں۔ جن کو سلیکشن بورڈ سے نظر انداز کروایا گیا تھا، تاہم ماضی کی ’’کارکردگی‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کلاکار مقدور بھر کوشش کریں گے کہ ان کی پوزیشنیں بچی رہیں۔ دسمبر 2016ء میں جو سلیکشن بورڈ ہوا، اسکی داستان اور بھی نرالی ہے، اس بار یا تو حکومت کو دیر ہوگئی اور وہ اپنی ’’خواہشات‘‘ سلیکشن بورڈ تک نہ پہنچا سکی پا پھر ایف پی ایس سی کے چیئرمین حکومت کے دبائو میں نہ آئے اور سلیکشن بورڈ نے تقریباً 400 افسران کی گریڈ 20 اور گریڈ 21میں ترقی کیلئے سمری وزیراعظم کو ارسال کردی جو اِس مرتبہ دو سے زیادہ ماہ وزیراعظم کے دفتر میں پڑی رہی، عموماً دوسرے تیسرے دن یہ سمری واپس آجاتی ہے۔ اب جو افسران 2015ء میں نظر انداز کروائے گئے تھے، وہ 2016ء کے بورڈ میں ترقی کیلئے موزوں قرار دیئے گئے، اگر ان کی ترقی ہوجاتی تو وہ 2015ء سے اپنی سنیارٹی کلیم کرتے۔ ایسے میں وہ ’’میر منشی‘‘ سے پھر سینئر ہوجاتے اور مئی 2017ء میں گریڈ 22 کے امیدوار ٹھہرتے، چنانچہ اس مرتبہ ایک نیا فارمولہ ترتیب دیا گیا یعنی وہ افسران جنہیں سلیکشن بورڈ نے ترقی کیلئے منظور کیا تھا، کانٹ چھانٹ وزیراعظم کے دفتر میں کی گئی، کوئی ایک سو کے لگ بھگ افسران کے نام کاٹ کر باقی ناموں کی منظوری دیدی گئی‘ جو نام کاٹے گئے ان میں سوائے ایک یا دو کے وہ تمام نام شامل ہیں جو وزیراعظم آفس میں بیٹھے بیورو کریٹ سے سینئر ہیں مگر دکھاوے کیلئے باقی سروس گروپس کے افسران کے نام بھی کاٹے گئے تاہم اصل ہدف تو پی اے ایس کے افسران ہی تھے، اس نئی کانٹ چھانٹ پر بیورو کریسی میں ایک طوفان برپا ہوگیا ہے، سینئر افسران کیلئے یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وہ ڈی ایم جی (این) میں شامل ہوجائیں یا اپنے جائز مطالبات سے دستبردار ہوجائیں۔ وفاقی دارالحکومت میں تعینات 22 گریڈ کے سینئر اُس ’’میر منشی‘‘ کی نظرِ کرم کے منتظر رہتے ہیں جو خود اب تک گریڈ 21میں ہے اور اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد گریڈ20 میں جاچکا ہے۔ یہ تو کسی نے بھی نہیں سوچا کہ بورڈ کے اجلاس سے پہلے جس آئی بی نے تمام افسروں کی ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دی، اسی آئی بی نے بعد میں حکمرانوں کی پسند کی رپورٹ کیسے دیدی اور کسی نے بھی آئی بی کے ان افسروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جنہوں نے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملا کر وزیراعظم آفس کی ساکھ بری طرح مجروح کی۔ دوسرا، اگر ان کی رپورٹ کے مطابق بورڈ کی سفارش کے باوجود افسران کی اکثریت ترقی اس لئے نہ پاسکی کہ حکمران راندۂ درگاہ افسروں کی ترقی میں رکاوٹ بن گئے لیکن وہ تمام افسر جو حکمرانوں کی نظر میں بری شہرت کے حامل ہیں، ہنوز اہم عہدوں پر کیوں تعینات ہیں۔ وزیراعظم کو ضرور سوچنا چاہئے کہ کون ایسا کردار ہے جو کئی سالوں سے ان کی سبکی کروارہا ہے، اس وجہ سے افسروں کو اب نہ تو بورڈ پر اور نہ وزیراعظم کے سیکرٹریٹ پر ہی اعتبار رہا ہے۔ وزیراعظم کو اپنے دفتر کی ساکھ بحال کرنے کیلئے بورڈ کی سفارشات کو ہی حتمی قرار دینا چاہئے تاکہ کوئی پسند ناپسند کا تڑکا لگا سکے نہ میرٹ کا قتل کرسکے۔ ڈان لیکس اور اسی طرح کے ایک دو اسکینڈلز میں اپنے ’’میر منشی‘‘ کا نام بھی گردش کرتا رہا ہے ان کے نام آنے کے بعد وزیراعظم سے توقع تھی کہ وہ اپنے ’’ذاتی معتمد‘‘ کیلئے کسی سمجھدار‘ صوبر، ڈیسنٹ اور انصاف پسند سینئر بیورو کریٹ کا انتخاب کریں گے، لیکن لگتا یوں ہے کہ وزیراعظم اسکا فیصلہ اس وقت کریں گے جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا، ہمارا وزیراعظم کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ بیورو کریسی میں تفرقہ پیدا کرنے والے کلا کاروں اور اپنے گرد جمع مہا کلاکاروں سے ہوشیار رہیں، وہ عدم ترقی کا شکار افسران کو بدست خود پروموٹ کردیں ورنہ ان لاوارثوں کا فیصلہ بھی آخر سپریم کورٹ ہی کو کرنا پڑیگا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ایف پی ایس سی کے چیئرمین اور سلیکشن بورڈ کے دیگر ممبران بھی خود انصاف کرتے ہوئے حکومتی دبائو سے آزاد رہ کر فیصلے کریں گے کہ ایک عدالت آگے بھی لگنی ہے جہاں نہ کوئی ’’میرمنشی‘‘ ہوگا، نہ وزیراعظم!


.
تازہ ترین