کراچی(ٹی وی رپورٹ) پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ سعودی اتحاد میں شمولیت کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا ضروری تھا، مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ بطور حکومت یا ریاست سعودی فوجی اتحاد کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قائم فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے اپنا ایک ریٹائرڈ آرمی چیف دیا ہے، جنرل راحیل شریف نے انفرادی حیثیت میں فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی مانگا جو وزارت داخلہ نے دیدیا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری بھی شریک تھیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ راحیل شریف کی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کا معاملہ ایک فرد کا نہیں ریاست پاکستان کا ہے، حکومت پارلیمنٹ کے فیصلے پر نظرثانی کررہی ہے تو ایوان میں آکر موقف پیش کرے، ایان علی کی بیرون ملک روانگی، ڈاکٹر عاصم کی رہائی اور شرجیل میمن کی اچانک وطن واپسی سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں مفاہمت کا تاثر بن رہا ہے۔شازیہ مری نے کہا کہ سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا ضروری تھا، حکومت نے پارلیمنٹ کی قرارداد میں تبدیلی کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں بتائے،پیپلز پارٹی کے وزراء کو عدالتوں سے ریلیف ملتی ہے تو اسے ڈیل کہہ دیا جاتا ہے ۔طارق فضل چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور حکومت یا ریاست سعودی فوجی اتحاد کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قائم فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے اپنا ایک ریٹائرڈ آرمی چیف دیا ہے، جنرل راحیل شریف نے انفرادی حیثیت میں فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی مانگا جو وزارت داخلہ نے دیدیا، سعودی یمن تنازع میں چونکہ افواج پاکستان سعودی عرب بھیجنے کا معاملہ تھا اس لئے پارلیمنٹ میں لے کر گئے تھے، اب ریٹائرڈ آرمی چیف کی خدمات مانگی گئی ہیں اس لئے یہ معاملہ مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا پیپلز پارٹی کے دورمیں ریٹائر ہونے کے بعد دبئی میں کام کرتے رہے لیکن کسی نے شور نہیں مچایا، حکومت پی ٹی رہنماؤں کیخلاف کیسوں پر عدلیہ کو احکامات جاری نہیں کرسکتی ہے، حکومت نے کیسوں کو سیاسی نہیں بنایا، چوہدری نثار کو مینیج کرنا ممکن نہیں ہے، شرجیل میمن کو حفاظتی ضمانت حکومت نے نہیں ججوں نے دی تھی، ڈاکٹر عاصم کی ضمانت میڈیکل بنیادوں پر ہوئی ہے، حکومت نے تمام معاملات میں شواہد کی بنیاد پر انصاف کے مطابق فیصلے کی کوشش کی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ راحیل شریف کی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کا معاملہ ایک فرد کا نہیں ریاست پاکستان کا ہے، حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے پاک فوج بھیجنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، یمن تنازع میں فوجی اتحاد کا حصہ بننے کا تقاضا نہیں مانا جاسکتا تھا، مسلم ممالک کے تنازعات میں کسی کا طرفدار بننے کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئے، سعودی فوجی اتحاد پر ایران سمیت دیگر شیعہ اکثریتی ممالک کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت معمولی بات تھی تو پارلیمنٹ میں کیوں لائی گئی تھی، یمن کے تناظر میں اتحاد میں شمولیت سے متعلق معاملہ پارلیمنٹ میں زیربحث رہا، اب فوجی اتحاد میں شمولیت یا راحیل شریف کی سربراہی سے متعلق پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، حکومت نے فوجی اتحاد سے متعلق ازخود فیصلہ کر کے پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق کیا اور قوم سے حقائق چھپائے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت پارلیمنٹ کے فیصلے پر نظرثانی کررہی ہے تو وزراء ایوان میں آکر حکومتی موقف پیش کریں، سعودی اتحاد میں شمولیت کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جائے، جنرل راحیل شریف کو عزت دی جارہی ہے تو ہمیں خوشی ہوگی، پی ٹی آئی کا سوال راحیل شریف کی ذات سے نہیں پاکستان کی شمولیت سے ہے۔انہوں نے کہا کہ ایان علی کی بیرون ملک روانگی، ڈاکٹر عاصم کی رہائی اور شرجیل میمن کی اچانک وطن واپسی سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں مفاہمت کا تاثر بن رہا ہے، یکے بعد دیگرے ہونے والے ان واقعات سے لگتا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ ہورہا ہے،، ملتان میں اپوزیشن کی یونین کونسلوں سے کچرا نہیں اٹھایا جاتا ہے۔شازیہ مری نے کہا کہ سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا ضروری تھا، یہ قوم کا مسئلہ ہے اس میں پوری قوم کی رائے ضروری ہے اورقوم کی رائے پارلیمنٹ سے لی جاتی ہے، حکومت نے اس معاملہ پر پارلیمنٹ کا رخ نہ کیا تو بڑی غلطی کرے گی، حکومت نے یمن کے تناظر میں پارلیمنٹ کی قرارداد کا مقصد نہیں سمجھا، آج فارن آفس کا ایک افسر کہتا ہے ہم ایک عرصے سے سعودی اتحاد کا حصہ ہیں، حکومت نے پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا ہے جو اس کا شیوہ بن چکا ہے، حکومت نے پارلیمنٹ کی قرارداد میں تبدیلی کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں بتائے۔انہوں نے کہا کہ نواز لیگ سیاست میں مخالف جماعتوں کو نشانہ بنانے پر گہرا یقین رکھتی ہے، پیپلز پارٹی کے وزراء کو عدالتوں سے ریلیف ملتی ہے تو اسے ڈیل کہہ دیا جاتا ہے ، پی ٹی آئی کے وزیر کو پندرہ ماہ بعد عدالت سے ضمانت ملی لیکن ہم نے کچھ نہیں کہا ۔