• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوموں کے مفادات کا تعین کرنا ، پھر مفادات کے حصول کی غرض سے حکمت عملی تشکیل دینا اور پھر مفادات کا حصول کرنا ہفتوں مہینوں نہیں بلکہ بسااوقات صدیوں کا سفر ان تمام مراحل کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں فرانس میں نپولین بونا پارٹ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی برطانیہ میں 1815میں یورپ کے ایک ایسے اتحاد کے خواب دیکھے جانے لگے تھے کہ جس میں کچھ اقدار کو تسلیم کرکے اور قوانین کی تشکیل کے ذریعے یورپ میں تسلط کی جنگ کی بجائے مشترکہ طاقت بننے کی جانب بڑھا جائے ۔ ان معاملات میں جہاں لڑائی جھگڑے ہوتے رہے وہی پر یہ خیال بھی بہرحال تقویت پاتا رہا ۔ اس معاملے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیںہے کہ دوسری عالمی جنگ تک دنیا کے نقشے میں بہت حد تک برطانیہ نے اپنی مرضی کے رنگ بھرے اور دوسری عالمی جنگ کے اختتام ، مارشل پلان اور اس کے بعد امریکہ نے قیادت سنبھالتے ہوئے من چاہے نقشے برطانیہ کے ہمراہ تشکیل دیئے ۔ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تصور مزید گہرا ہوتا چلا گیا کہ اگر باہمی اختلافات کسی پر امن تصفیے تک نہیں پہنچ پاتے تو اس کے مزیدا بتری ہی نصیب میں لکھی جاتی رہے گی ۔ اسی سبب سے 1957ء میں معاہدہ روم عمل میں آیا اور پھر یکے بعد دیگرے یورپی مملکتیں متحدہ یورپ کی لڑی میں پروئی جانے لگیںمگر گزشتہ سال برطامیہ کے عوام کی جانب سے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں رائے آنے کے بعد اس میںغیر معمولی بھونچاـل آگیا اور اب برطانیہ میں اس کا آغاز بھی ہوگیا ہے اس آغاز سے عالمی حالات میں تبدیلی کی توقع کی جا رہی ہے ۔ یہ بہت اہم ہے کہ برطانیہ کم و بیش 200 سال پرانے تصور سے کیو ںباہر آیا اور ابھی بھی کس حد تک باہر آنا چاہتا ہے قوموں کے اتنے بڑے فیصلوں کے پس منظر میں ان قوموں کی ذہنی نشوونما کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ برطانیہ کے عوام کسی کے زیر تحت رہنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے مگر یورپی یونین میں شمولیت کی بناپر گورے بتدریج ایسے قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ جن قوانین کی تشکیل میں انگریز فیصلہ کن طاقت نہیں تھے ۔ تقریباً 60فیصد برطانوی قوانین یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی اختراع تھے ۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سیاسی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے انگریز یہ بھی بری طرح محسوس کررہے تھے کہ یورپی پارلیمنٹ کے ذریعے ان پر غیر مسلط ہو چکے ہیں۔ اور یہ تصور اذیت ناک بنتا جا رہا تھا ۔ انگریز اس اذیت کو برداشت کرتے چـلے جاتے اگر اس سے برطانیہ کی معاشی حالت میں بہتری ہو رہی ہو تی ۔ مگر یورپی یونین میں نسبتاً کمزور معاشی حالت کے حامل ممالک کی شمولیت اور اس کے اثرات نے ایک عام انگریز کو اس سے بد ظن کرنا شروع کر دیا ۔ یونان کے بحران نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا اور انگریزوں میں یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے سبب سے جو بد اثرات مرتب ہو رہے تھے ان سے چھٹکارا پانے کی سوچ مزید پنپتی چلی گئی تقریباً 20ارب اسٹرلنگ پائونڈ کی رقم برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو دی جا رہی تھی ۔ پھر برطانیہ میں یہ تصور بھی بہت گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ امیگریشن کےوجہ سے برطانیہ میں دوسری قوموں کا اثر نفوذ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اگر یہی کیفیت رہی تو برطانیہ کے پرانے باسی کیلئے اپنی زمین پر دوسروں کو بھی گرفت کرتے دیکھنا ہوگا ۔ مگر اس سب کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے سے برطانیہ کے اپنے وجود کو بھی بہر حال خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بریگزیٹ کے حق میں جہاں مجموعی طور پر فیصلہ آیا وہیں پر اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں عوام کی غالب اکثریت نے ریفرنڈم میں یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دیا تھا وہاں مفادات یورپی یونین کے ساتھ رہنے میں نظر آرہے ہیں ۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اسکاٹ لینڈا ورآئر لینڈ یونائیٹڈکنگڈم میں رہنے کے حوالے سے کن جذبات کا شکار ہو نگے ان میں بہرحال یوکے کی سا لمیت کو خطرات پہنچ سکتے ہیں برطانیہ کی 50% ایکسپورٹس چاہے مصنوعات کی صورت میں ہوں یا سروسز کی صورت میں یورپی یونین کی ممالک کی طرف ہی جاتی ہیں ۔ برطانیہ کی خواہش ہےکہ وہ اس اتحاد سے صرف اتنا ہی باہر آئے کہ جتنا وہ اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے۔ لیکن جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے اس بیان کے بعد کہ دونوں معاملات اکھٹے نہیں چل سکتے ۔ یورپی یونین کے کرتا دھرتائوں کے تیور سمجھے جا سکتے ہیں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے اثرات سے بہرحال پاکستان بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ اثرات مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی ۔ برطانیہ یورپی یونین میں پاکستان کے حق میں ایک توانہ آواز تھی۔ جی ایس پی پلس دلوانے میں برطانیہ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجہ میں صرف ایک سال میں یورپی یونین میں پاکستان کی ایکسپورٹس تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالر سے ساڑھے سات ارب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ برطانیہ کی جانب سے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کشمیر پر ایک موثر آواز تھے۔ برطانیہ سے براہ راست زیادہ بہتر معاہدے جو پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ یورپی یونین میں مفادات کی بقا اور برطانیہ سے مزید مفادات حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان کو ابھی سے معاملات پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔ اپنے دوست ممالک سے مشاورت کرنی چاہئے اس مشاورت کا ماڈل چوہدری نثار کی جانب سے بلائی گئی گستاخانہ مواد کے معاملے پر سفیروں کی کامیاب کانفرنس سے لیا جا سکتا ہے کہ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر مشاورت کا عمل ہو۔ خیال تو اس کا بھی رکھنا چاہئے کہ جرمنی اور فرانس کے انتخابات میں کیا نتائج سامنے آتے ہیں کہ وہ مزید بھونچال پیدا کر سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین