وطن عزیز کی دینی سیاست پر ایک سو ایک اعتراضات کئے جا سکتے ہیں بالخصوص مولانا مودودی کی جماعت جس نوع کی سیاست کر رہی ہے اس پر تو خود جماعت کے اپنے سابق امیر میاں طفیل محمد صاحب بھی چیخ اٹھے تھے۔ اس طرح مولانا مفتی محمود کی جمعیت العلمائے اسلام جو خود کو جمعیت العلمائے ہند کی جانشین قرار دیتی ہے، خاص طور پر جمعیت کے موجودہ امیر مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست پر ان کے حریف بہت سی شکایات اٹھاتے رہتے ہیں۔ ایک موقع پر تو ہم نے براہِ راست اُن سے یہ کہا کہ مولانا میڈیا میں آپ کی سیاست کے حوالے سے اکثر تند و تیز تنقید ہوتی رہتی ہے، آپ پر بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں یا اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ مولانا بولے کہ ایک سیاستدان کا کام ہر وقت نکتہ چینی کرتے رہنا نہیں ہوتا۔ لوگ اگر ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیں منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں تو ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اُن کے مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ محض محاذ آرائی کی سیاست کرتے رہنے سے تو لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور پھر اگر ہم حکومتوں سے تعاون کرتے ہیں تو یہ تعاون برائی سے روکنے اور نیکی پھیلانے کے لئے ہوتا ہے اور اگر ہم یہ رول ادا نہ کرتے تو مخالفین اس ملک کو سیکولر نظریہ پر لے جا چکے ہوتے اُن کے اس ایجنڈے کے سامنے ہم ہی تو اصل رکاوٹ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست سے لاکھ اختلاف کر لیا جائے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ انہوں نے خود کو نہ صرف یہ کہ مولانا مفتی محمود کا سیاسی جانشین منوایا ہے بلکہ اپنی پارٹی کو مشکل حالات میں بھی بہتر مقام دلوایا ہے اُن کا مکتبہ فکر ان دنوں شدت پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے جس طرح ملامت کی زد میں تھا یہ انہی کا حوصلہ ہے کہ وہ اپنی پوری جانفشانی سے اپنے فرقے پر بھی کوئی دھبہ نہیں لگنے دے رہے اس طرح کی تمام تر تنقید کے باوجود وہ امن و سلامتی اور صلح جوئی کی سوچ کو اپنی پہچان ٹھہراتے ہوئے علماء سے کہتے ہیں کہ انہیں پارلیمانی رویہ اپنانا ہو گا بصورت دیگر لوگ اُن کے پاس صرف دم درود کروانے کے لئے آئیں گے نہ کہ حقیقی مسائل حل کروانے، انہوں نے برعکس نقطہ نظر رکھنے والے علماء کو چیلنج کیا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ بندوق کی طاقت سے اسلام کس طرح نافذ کیا جا سکتا ہے ایسا صرف پارلیمانی جدوجہد ہی سے ممکن ہے اسلحہ کی طاقت حاصل کرنا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔۔۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا وطنِ عزیز کے تمام جہادی علماء کو یہ بہت بڑا چیلنج ہے جس کا انہیں یا تو مسکت جواب دینا چاہئے یا جبر کے ہتھیاروں کو پھینک کر پارلیمانی سیاست کے لئے اُن کی امامت میں آ جانا چاہئے۔ مولانا نے انتہائی مساعد حالات کے باوجود اپنی اس امن پسندی پر مبنی مثبت فکر کو نہیں چھوڑا۔ معروف جہادی نظریہ رکھنے والے ان کے اپنے ملکی لوگوں نے ان پر متعدد مواقع پر قاتلانہ حملے بھی کیے ہیں جن میں خدا نے ان کی حفاظت فرمائی مگر دہشت گردوں کی سوچ کے حوالے سے وہ ثابت قدم رہے کبھی نرم اور کبھی گرم الفاظ میں وہ اس کے خلاف بولتے رہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حال ہی میں یورپی ممالک کے سفیروں کو بریفنگ دیتے ہوئے اسلام اور مغرب کے درمیان دوستانہ تعلقات کی خاطر جو پانچ نکاتی ایجنڈا دیا ہے وہ بھی عصری تقاضوں کے عین مطابق مولانا کی ذہانت کا ثبوت ہے اس میں انہوں نے پسے ہوئے پسماندہ طبقوں کی محرومی کے لئے معاشی خوشحالی کی بات کی ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے تحفظ پر ایکا کرتے ہوئے ہمیں عہد باندھنا ہو گا تاکہ ہم باہمی طور پر بہتر تعلقات کو فروغ دے سکیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ہم عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں، ہم نفرت کی بنیاد پر نہیں آئینی و سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر جدوجہد کرتے ہوئے عوامی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ہم خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر وسیع النظری کی سوچ رکھتے ہیں ہندو سکھ مسیحی برادریوں کے لوگ ہماری جماعت کا حصہ ہیں۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے کئی پارلیمنٹرینز ہمارے سابق وفاقی و صوبائی وزرا رہ چکے ہیں، بشپ آف پاکستان ہماری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں، ہم اقلیتوں کے جان و مال اور عزت و ناموس کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ہم انتہاپسندی اور اسلحہ کے زور سے اپنے خیالات مسلط کرنے کی سوچ کو مذہب کی تشریح خیال نہیں کرتے۔
جمعیت العلمائے اسلام جیسی خالص مذہبی جماعت کے رہنما جب اس نوع کی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ پاکستان کے لبرل سیکولر طبقات سے اُن کے نہ صرف فاصلے کم ہوتے چلے جائیں گے بلکہ لڑائی کا کوئی جواز نہیں رہ جائے گا۔ نوشہرہ کے قریب اضاخیل میں مولانا فضل الرحمٰن نے علمائے دیوبند کا جو اتنا بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا ہے وہ بھی مولانا کی اسی کاوش کا حصہ ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ تنگی حالات یا مذہبی جبر نے انہیں بالآخر اس سوچ پر راغب کر دیا ہے کہ جمعیت ا لعلمائے ہند کی اُس سیاسی جدوجہد کو ازسرِ نوع وطنِ عزیز میں زندہ کر دیاجائے جو نہ صرف یہ کہ اپنے وقت میں اعتدال پسندی پر مبنی تھی بلکہ غیر جانبدار تجزیہ نگار بھی اُسے لبرل اور سیکولر معنوں میں لیتے تھے اگرچہ ان پر دو اصلاحات کو ہمارے یہاں اتنا منفی بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ خود مولانا بھی ان الفاظ کا استعمال نہیں کر سکیں گے لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جمعیت العلمائے ہند کے رہنما مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ڈنکے کی چوٹ نہ صرف متحدہ سیاسی قومیت کا دفاع کیا تھا بلکہ یہاں تک فرمایا تھا کہ فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ مولانا مدنیؒ اور مولانا ابو الکلام آزاد ؒ جیسی عظیم عبقری شخصیات کی سیاسی سوچ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی علمی قابلیت دینی فہم اور خلوص پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
فلسفہ عدم تشدد کی فکر کے حوالے سے بھی مولانا کا اظہارِ خیال معنویت کی ایک تاریخ رکھتا ہے، گاندھی کے بعد جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ فخر افغان باچا خان ؒ صاحب کو جاتا ہے جن کے علمائے دیو بند کے ساتھ عقیدت و ارادت بھرے تعلق کی ایک پوری تاریخ ہے اس طرح اُن کے فرزند خان عبدالولی خاں کے ساتھ مولانا مفتی محمودؒ کی سیاسی طور پر اتنی قربت رہی کہ جب ایک سویلین ڈکٹیٹر نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو چلتا کیا تو مفتی صاحب نے بحیثیت وزیراعلیٰ پختونخوا احتجاجاً مستعفی ہوتے ہوئے اپنی حکومت توڑ دی۔ آج مولانا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ دیوبند کے پس منظر میں علم و تصوف اور لبرل اپروچ کے حوالے سے بھی روشنی کی کئی لہریں موجود ہیں۔ اس عظیم جدوجہد سے سو سالہ ناتے کی یاد مناتے ہوئے مولانا نے جو فکری استواری پیدا کی ہے اس پر مولانا تمام اہل وطن کی طرف سے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ سابق کھلاڑی کو بھی مولانا کے حوالے سے تہذیب سیکھنی چاہئے، البتہ اجتماع میں مخالفین کی آنکھیں نکال دینے کی منفی سوچ پر مبنی تقاریر سے احتراز کیاجانا چاہئے کہ مذہبی اختلافات کے باوجود سب امہ کا حصہ ہیں۔
.