• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ ، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اخلاقی میدان مار چکے

  اسلام آباد (طاہر خلیل ) خفا ہمیشہ ہوئے مگر اب کے ۔ وہ رنجشیں ہیں کہ ان کوگلے بھی نہیں۔درونِ خانہ مقاصد کچھ بھی ہوں بادی النظر میں میاںرضاربانی چیئرمین سینیٹ وہ اخلاقی میدان مار چکے ہیں جسے انگریزی میں Moral  ground کہتے ہیں۔ چیئرمین کا جمعہ 14اپریل وقفہ سوالات میں نامکمل جوابات اور بعض جوابات کا سرے سے موجود ہی نہ ہونا اور اس پر مستزاد وفاقی وزراء کی فوج  ظفر موج میں صرف دو اور وہ بھی بے ضرر وزراء کی موجودگی چیئرمین ہی نہیں دیگر اراکین کو برا نگیختہ کرنے کو کافی تھی ۔ اس  لئے میاں صاحب نے یہ کہہ کر اجلاس کی بساط غیر معینہ مدت کےلئے لپیٹ دی کہ جب حکومت جواب دہی پر راضی نہیں تو ہنگامہ اجلاس برپا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟پارلیمانی تبصرہ نگاروں کے نزدیک یہ حکومتی غیر جمہوری رویے کی واضح مثال اور رضاربانی کی جمہوریت پسندی کی دلیل سمجھی گئی ۔ اس نقطے پر رضاربانی حق بجانب سمجھے گئے اور داد و تحسین اور مبارک سلامت کے شور میں رضاربانی نے سولہ آنے کی کھری وہ چوٹ کر دی جو گویا دل میں دبائے بیٹھے تھے ۔ واقعہ یہ ہے کہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سوال پوچھا تھا کہ گریڈ 21،22کے ملازمین کی مراعات کیا ہیں ۔قارئین کو یا دہوگا کہ ابھی تین دن پہلے ہی اس نوع کے اعلیٰ فوجی افسران کی مراعات کی تفصیل بھی پوچھی گئی تھی ۔ ہر دو صورتوں میں جواب ندارد تھا ۔ ایسے میں رضاربانی نے زہر قند لہجے میں شکوہ کیا کہ تما م چیزیں فقط سیاستدانوں کےلئے ہی رہ گئی ہیں جبکہ سول اور فوجی افسر شاہی کے تمام اداروں کو پردے میں رکھا جارہا ہے ۔ رضاربانی ، ان کی پارٹی اور ان کی پارٹی کی حلیف جماعتوں کا یہ واویلا کوئی نیا نہیں مگر کراچی کے تناظر میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں اور گمشدگیوں نے اس زخم کو گویا ہرا کر دیا ہے ، گویا چیئرمین صاحب غالب کے لہجے میں یہ مرثیہ کہہ کے اٹھے ۔ناکر دہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد  یا رب اگر ان کردہ، گناہوں کی سزا ہے ۔ زیر آستیں خنجر کیا تھا ۔ اور کہیں کا غصہ کہیں اور کیوںنکلا۔یہ سب کہنے کو حکومت کے وہ اکابرین کافی ہیں جنہیں سینیٹر اعتراز احسن پیار سے گالم گلوچ بریگیڈ کہتے ہیں ۔نقطہ محض اتنا ہے کہ حکومت کب بڑی ہوگی اور اپنے جمہوری رویے کے اس سن ِبلوغت کو پہنچے گی جہاں وہ ایوان کی کارروائی کوسنجیدگی سے لینا شروع کر دے اس اہم پچ کو خالی نہ چھوڑے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی تقاضے یعنی پارلیمانی جواب دہی کے سامنے سر تسلیم خم کرلے ۔ یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں بے نیاز ادائوں کی ان ہی وجہ سے 1993میں سابق صدر بزرگ غلام اسحقٰ خان نے کابینہ کوا نڈر 19ٹیم کا خطاب دیا تھا ۔  سینیٹ میں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد وزراء کو سمجھ جانا چاہیے کہ 2017میں 16برس والے چونچلے نہیں چلیں گے ۔
تازہ ترین