لندن (آصف ڈار) گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، البتہ یہ علاقے مسئلہ کشمیر کا حصہ ضرور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں انفراسٹرکچر بننے کے بعد بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف کو 30سال کے لئے اقتدار دے دیا جائےتو وہ ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیں گے۔ انہوں نے قرار دیا کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ آئینی حقوق کا ہے۔ وہ جمعہ کی شب والتھم فاریسٹ ٹائون ہال میں مسلم لیگ (ن) برطانیہ ڈاکٹر ونگز کے چیئرمین ڈاکٹر انجم اور والتھم فاریسٹ کے سابق میئر کونسلر لیاقت علی جے پی کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے وفاقی کمشنر اور مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے صدر زبیرگل، ڈاکٹر انجم، کونسلر ندیم علی، کونسلر لیاقت علی، چوہدری ظفر، رفیق مغل اور ڈاکٹر عدیل نے بھی خطاب کیا، جبکہ نظامت بیرسٹر عابد حسین نے کی۔ وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نے آزاد کشمیر کے لیڈروں کے ان دعوئوں کو مسترد کر دیا کہ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 68سال میں ایک بار بھی آزاد کشمیر کے کسی وزیراعظم نے گلگت بلتستان کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کا حال پوچھا۔ آج جب یہاں کے عوام کو آئینی حقوق ملنے کی بات ہو رہی ہے تو یہ لیڈر کس منہ سے ان علاقوں کو آزاد کشمیر کا حصہ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان کے لوگ اپنے علاقے کو کشمیر کا حصہ تصور نہیں کرتے اور جو پارٹی ایسا کہتی ہے، وہ اسے ووٹ تک نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کشمیر کی فکر چوہدری مجید سے زیادہ ہے اور چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے علاقے مسئلہ کشمیر کا حصہ ہیں مگر ان کا کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ نواز شریف کے دور میں ہی حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان مضبوط ہوگا تو وہ کشمیر کی آزادی کے لئے کام بھی کر سکے گا۔ حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء آتا رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کرسکا۔ چین نے اس لئے ترقی کی کہ وہاں 68سال سے ایک ہی پارٹی کی حکومت چلی آرہی ہے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف کو 30سال کے لئے اقتدار دے دیا جائے تو وہ ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آمروں نے تباہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو ابھی تک شناخت نہیں ملی۔ ان علاقوں کو آئینی حقوق ملنے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گلگت بلتستان میں ترقی کے لئے وزیراعظم کو تجاویز پیش کی ہیں۔ ان کی منظوری کے بعد سرمایہ کاروں کے لئے پالیسی بنائی جائے گی اور انہیں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔ البتہ وزارت سیاحت کے نمائندوں کو جلد یورپی ممالک بھیجیں گے اور سیاحتی پیکجز کا اعلان بھی کریں گے۔ زبیرگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں نے اب سکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملے شروع کر دئیے ہیں۔ بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کو اب صرف نہتے لوگ ہی نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فروری میں فیڈرل کمیشن کو اسلام آباد سیکریٹیریٹ میں باقاعدہ دفتر مل جائے گا اور وہ مکمل طور پر کام شروع کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں قومی اسمبلی میں تین نشستیں رکھی جائیں گی۔ ایک امریکہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی، ایک مشرق وسطیٰ اور ایک یورپ کے پاکستانیوں کے لئے ہو۔ اس کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں کے پاکستان میں کیس تیزی کے ساتھ نمٹانے کے لئے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ یہ چیزیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر انجم نے کہا کہ گلگت بلتستان کی سرزمین سونا اگلتی ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں پانی کی اشد ضرورت ہوگی اور اس کو یہ علاقے اپنے گلیشیرز سے پورا کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے ذخائر کرنے کے لئے ڈیم بنانے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں، ان میں ہر قسم کی معدنیات موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں کو جیول آف پاکستان بھی کہتے ہیں اور یہ واقعی پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی سبزیاں اور پھل تازہ اور خالص ہیں۔ ان کو ایکسپورٹ کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں موجود ڈاکٹر اور انجینئر وہاں جاکر خدمات سرانجام دینے کو تیار ہیں۔ کونسلر لیاقت علی نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ بزدلانہ کارروائی ہے۔ برٹش پاکستانیوں کو اس قسم کے واقعات سے سخت دکھ پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ والتھم فاریسٹ کونسل نے اس سانحے کے بعد اپنا پرچم سرنگوں کیا اور ایک تعزیتی کتاب بھی رکھی گئی ہے۔ کونسلر لیاقت علی نے کہا کہ والتھم فاریسٹ بارو میں کئی قوموں کے لوگ آباد ہیں، جن میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی ہے۔ 60کونسلروں میں سے 13مسلمان ہیں اور اس علاقے میں پاکستانیوں کے بہت زیادہ بزنس ہیں۔ تقریب میں ڈاکٹرامداد، ڈاکٹر عنایت، طحہٰ قریشی، عمر قریشی، رانا مسرور، اقبال سندھو، شاکر قریشی، نذیربٹ، بیگم نوادر، چوہدری انصر اور دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب میں حفیظ الرحمٰن کو کونسل کی جانب سے شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا گیا۔