بطور صحافی اپنی بھی کیا زندگی ہے کہ جس کی بات کو اس کی مرضی کے مطابق اپنی رائے شامل کئے بغیر لوگوں تک پہنچایا تو ہم ریاست کا چوتھا ستون بھی اور آنکھ وکان بھی ٹھہرے لیکن جیسے ہی ذرا پیچھے مڑ کر حالات پر نظر ڈال کے کچھ تبصرہ کیا تو فوری طور پر ہمیں بلیک میلرز اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ بات سال 2004کے بعد کی ہے جب میں پشاورمیں ایک ٹی وی چینل کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور خیبرپختونخوا میں دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ اسی دوران میرے ہاتھوں ایک ایسی رپورٹ بن گئی جو اس وقت کے حکمراں کو بری لگی اور دوسرے دن مجھے صدر پرویز مشرف کا ساتھی اور اسلامائزیشن کے خلاف اور ایجنٹ کہا گیا ہر جلسے اور جلوس میں میرے خلاف تقریریں کی گئیں جس پر دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کچھ دن کے لئے انڈر گراونڈ ہوجائوں لیکن میں ناں مانا، بات صرف اتنی تھی کہ میں نے ایم ایم اے کے دور میں میری اس رپورٹ سے ڈھائی سال پہلے ہونے والے ایک حکومتی فیصلے کا فالواَپ کیا تھا کہ ہر جیل میں ایسے کمرے اور فلیٹ بنیں گے جہاں پر لمبی سزائیں بھگتنے والوں کے ساتھ ان کے بیوی بچے یا قیدی خاتون ہونے کی صورت میں میاں اور بچے ہر تین ماہ بعد تین دن کے لئے آکر رہ سکیں گے، اس رپورٹ میں قیدیوں کے انٹرویوز بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ اگرحکومت کو یہ بنانا نہیں تھا تو اعلان کر کے ان کے جذبات کے ساتھ کیوں کھیلا۔ رپورٹ آن ائیر ہوئی دوسرے دن تمام اخباروں میں میرے خلاف اس وقت کے وزیر اطلاعات کی جانب سے بیان چھپا کہ ان کی حکومت اس ایجنٹ صحافی کے دبائو میں نہیں آئے گی اور جس اخبار نے میرے خلاف یہ خبر نہیں چھاپی انہیں واضح پیغام دیا گیا کہ اس کے بعد سے انہیں صوبائی حکومت کے اشتہار نہیں ملیں گے دوسرے دن میرے خلاف یہ خبر پھر اخباروں کو بھیجی گئی اور ایک اخبار نے تو زیادہ ’’خوش اخلاقی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دوسرے دن بھی چھاپ دیا یہ شاید پہلا انوکھا واقعہ تھا کہ ایک اخبار میں دو دن مسلسل ایک ہی خبر چھپی اور صحافت کی تاریخ کا یہ واقعہ بھی میری ہی وجہ سے رونما ہوا۔ کوئی پروا نہیں کوئی اس کے بارے میں کیا کہتا ہے لیکن اب جبکہ صوبے میں حکومت اور اس کے سیاسی پیشوا عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ تبدیلی لائی جاچکی ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا تو جی چاہتا ہے وہ سوالات پوچھ لوں جو ذہن میں منڈلا رہے ہیں۔ ان کے جن نعروں کو پذیرائی ملی اور لوگوں نے اس کو خیبرپختونخوا میں سپورٹ کیا وہ نعرہ بے رحمانہ احتساب کا تھا لیکن اس جماعت کی حکومت کو بنے چار سال گزر چکے ہیں اورعملاً اس وقت صوبے میں اس احتساب کا عمل دوبارہ رک چکا ہے۔ شروع شروع میں تحریک انصاف کریڈٹ لیتی رہی تھی اور کہتی تھی کہ اس نے شفافیت کے لئے اپنے ہی وزیر کو گرفتار بھی کیا، چند سرکاری افسروں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا لیکن پھر ہوا یوں کہ خود متنخب لوگوں اور سرکاری افسروں کے اندر سے اس احتساب کی مزاحمت شروع ہوئی اور حکومت کو ان لوگوں کو مطمئن رکھ کر نظام چلانے کے لئے احتساب کے قانون میں ہی کئی ترامیم لا نا پڑیں جس کے بعد اب حالت یہ ہے کہ کسی کو بھی گرفتار کرنا ہو تو عدالت سے پیشگی اجازت لازمی ہوگی، کسی ایم پی اے پرہاتھ ڈالنے سے پہلے اسپیکر اسمبلی سے اجازت لینا ہوگی اور سرکاری افسر کو پکڑنے کیلئے چیف سیکرٹری کو پیشگی بتانا ہوگا۔
دوسرا سوال تحریک انصاف کے ایجنڈے کی ترجیح اول یعنی صحت کے بارے میں ہے۔ کے پی حکومت نے بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن عملاً حالت یہ ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے اسپتالوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ ابتری میں اضافہ ہی ریکارڈ ہورہا ہے۔کوئی اگریہ کہہ سکتا ہے کہ سرکاری سطح پر سہولتوں میں بہتری آرہی ہے تواس کو جواب دیں کہ پھر صحت کے کاروبار کی سب سے بڑی پرائیویٹ منڈی یعنی ڈبگری گارڈن اور اس جیسی کئی منڈیاں ہر شام آباد کیوں ہوجاتی ہیں یہاں ہزاروں لوگ کیوں علاج کے حصول کیلئے آتے ہیں؟ پورے شہر پشاور میں اس بڑی منڈی کے بعد ہر سڑک اور بازار میں میڈیکل پلازے کیوں خودرو پودوں کی طرح اُگ رہے ہیں اور پوری کامیابی سے ہر شام لوگوں کی جیبوں سے کروڑوں روپے کا سرمایہ ڈاکٹروں اور متعلقہ کاروبار کرنے والوں کی جیبوں میں کیوں چلا جاتا ہے؟
تیسری ترجیح تعلیم تھی اس میں بھی صوبائی حکومت کہتی ہے کہ کئی ہزار طلبہ کو اسکولوں میں ان رول کیا گیا ہے لیکن اس ان رولمنٹ کا ریکارڈ نہیں ہے کسی کے پاس، ایسا تو کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم نے دس لاکھ بچوں کو اسکولوں میں لانے میں مدد دی لیکن جب اعداد و شمار ہی نہ ہوں تو یہ ایک اخباری سرخی کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ اگر صوبے میں تعلیم میں کوئی بہتری آئی ہوتی تو ان چار سالوں میں کوئی ایک پرائیویٹ اسکول تو اس لئے بند ہوچکا ہوتا کہ اب حکومت نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار بلند کردیا ہے اب لوگ بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں نہیں لاتے۔ ایسا کہیں کچھ ہوا ہو اور سرکاری سے زیادہ نئے پرائیویٹ ادارے نہ بنے ہوں تو کوئی ہمیں بھی بتائے۔ یہ سب ان چار سالوں کے دوران بھی ہورہا ہے اور اس وقت تو بہت افسوس ہوتا ہے جب صوبے کا وزیراعلیٰ پشاور میں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہا ہو کہ اب بھی پچاسی فی صد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، اب کوئی یہ بتائے کہ پھرآپ ان چار سالوں میں کیا کرتے رہے۔
صوبے میں 19میں سے 10یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ہی نہیں، بجلی خود بنانے کے وعدے پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا، اگر کل الیکشن ہونے لگیں تو حکمراں جماعت کے پاس اپنا کوئی ایسا پروجیکٹ نہیں جس کی بنیاد پر وہ دوبارہ الیکشن جیت سکے۔ ہاں البتہ بی آر ٹی کے نام سے ایک ریپڈ بس کا منصوبہ ایسا ہے جو آئندہ الیکشن میں ووٹ ملنے کا ایک آسرا بن سکتا ہے لیکن اس کو بھی ابھی شروع ہونا ہے۔ ایسے میں جب لوگ صوبے میں چوروں کو پکڑنے کے نظام سے محروم ہوں، تعلیم، صحت، بجلی، گیس، پینے کا پانی اور ہر سہولت خود خریدتے ہوں تو پھر تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے انتخابی ایجنڈا پورا کرلیا بلکہ سوال تو اب بھی وہی ہے کہ عملی کام کب شروع ہوگا جو وقت پاس تھا وہ تو گزر گیا۔
.