کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوزکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں‘‘ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق جاتے جاتے بھی بڑا ریکارڈ بناگئے،پاکستان نے ویسٹ انڈین سرزمین پر پہلی دفعہ ٹیسٹ سیریز جیت کر تاریخ رقم کردی ہے، مصباح الحق اور یونس خان کے آخری میچ میں وہ بھی ہوگیا جو پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی 59 سالہ تاریخ میں نہیں ہوا تھا، یہ تاریخ ساز کارنامہ اتنا آسان نہیں تھا، پاکستان کیلئے سات سیریز تک ویسٹ انڈین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنا ایک ہی خواب رہا تھا، اس دوران ایسے مواقع بھی آئے جب پاکستان یقینی جیت کے باوجود ہار گئے، 2000ء کی سیریز میں پاکستان تقریباً جیت ہی گیا تھا مگر جیت ہاتھ نہ لگی، مئی 2000ء میں پاکستانی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے دو ٹیسٹ میچ ڈرا کھیلے جبکہ تیسرا ٹیسٹ میچ آخری دن زبردست ڈرامے کے ساتھ ختم ہوا، اس وقت لوگوں کو امپائروں کی بے ایمانی دیکھ کر جتنا غصہ آرہا تھا وسیم اکرم کی زبردست بولنگ پر امپائروں کی بے ایمانی دیکھ کر آج بھی اتنا ہی غصہ آتا ہے، ویسٹ انڈیز وہ میچ صرف ایک وکٹ سے جیتا، آخری اوورز میں امپائرز پاکستانی باؤلرز کی گیندوں پر ویسٹ انڈین بیٹسمینوں کے واضح آؤٹ بھی ناٹ آؤٹ قرار دیتے رہے تھے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ 1988ء میں پاکستانی ٹیم کا دورہ ویسٹ انڈیز یادگار رہا، عمران خان ویسٹ انڈیز کے اس ٹور میں کپتان تھے، 1988ء کی یہ سیریز بھی خراب امپائرنگ کی نذر ہوگئی، پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان نے نو وکٹوں سے جیتا، دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستانی ٹیم نے شاندار کارکردگی دکھائی مگر میچ ڈرا ہوگیا، سیریز کے آخری ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز کے مقامی امپائروں کے خراب فیصلوں نے پاکستان کو میچ اور سیریز جیتنے کے قریب پہنچ کر بھی جیتنے نہیں دیا، آخری روز 266کے ٹارگٹ کی طرف بڑھتی ہوئی میزبان ویسٹ انڈین ٹیم 207رنز پر آٹھ وکٹیں گنوا کر بھی وہ میچ جیت گئی، میچ میں بار بار اپیلیں ہوتی رہیں مگر بار بار آؤٹ نہیں دیا گیا۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید بتایا کہ پاکستانی ٹیم کا پہلا دورہ ویسٹ انڈیز بھی تاریخ میں درج ہے، 1958ء میں دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ لٹل ماسٹر حنیف محمد کی لمبی ترین اننگز کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب وہ تین دن تک وکٹ پر کھڑے رہے اور 337رنز بنائے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جس طرح ماضی میں عمران خان اور وسیم اکرم ویسٹ انڈیز کے دوروں کے دوران اپنی شاندار باؤلنگ سے میزبان ٹیم کی وکٹیں گراتے رہیں اسی طرح حالیہ سیریز میں اسپنر یاسر شاہ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیریز میں پچیس وکٹیں لے کر 1988ء کے عمران خان کے تیئس وکٹوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اس فتح کے ساتھ کیریئر کا آخری میچ کھیلنے والے کپتان مصباح الحق اور یونس خان کرکٹ کی تاریخ کا ہمیشہ کیلئے حصہ بن گئے ہیں،ان میں ایک پاکستان کا کامیاب ترین کپتان تو دوسرا پاکستان کا کامیاب ترین بیٹسمین ہے، ان دونوں لیجنڈری کھلاڑیوں کو فوری طورپر پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلئے استعمال کرنا پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے، امید کرتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ ماضی کے برعکس حالیہ ریٹائرڈ ہونے والے کھلاڑیوں کے تجربے سے پاکستان کرکٹ اور جونیئر ٹیم کو فائدہ پہنچائے گا، انڈیا نے راہول ڈریوڈ جیسے عظیم بیٹسمین کو جبکہ انگلینڈنے اسٹراس کو ریٹائر ہوتے ہی استعمال کیا، پاکستان میں الگ کلچر ہے کہ جو پرانے لوگ کارکردگی نہیں دکھاسکے کچھ دن پہلے دوبارہ ان کا تقررکرلیا گیا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں سزائے موت جانے کے خلاف بھارتی درخواست پر آج پہلی سماعت ہوئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، پاکستان نے کلبھوشن کے معاملہ پر اپنے موقف کا بھرپور طریقے سے دفاع کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو چیلنج کردیا اور بھارتی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی، بھارتی وکیل کی جانب سے کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دینے پر زور دیا گیا، عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر خاور قریشی نے کہا کہ عدالت بھارتی درخواست مسترد کردے ، ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار محدود ہے، پاکستانی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کلبھوشن کو مکمل قانونی کارروائی کے بعد سزا دی گئی اور بھارت کو اس بار ے میں بتادیا گیا تھا، بیرسٹر خاور قریشی نے یہاں ماضی کے چند کیسوں کا حوالہ بھی دیا کہ عالمی عدالت انصاف کرمنل کورٹ نہیں بلکہ یہ فورم دو ریاستوں کے درمیان تنازعات کا حل نکالنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بھارتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو بے قصور ہے اور اسے ویانا کنونشن کے تحت حقوق نہیں دیئے جارہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سی پیک منصوبہ چائنا کی پاکستان میں سرمایہ کاری بذات خود مشکوک ہو نہ ہو، اس کے اندر مسائل ہو ں نہ ہوں مگر حکومت کی خاموشی، حقائق کو سامنے نہ لانا، حکومت کا پارلیمنٹ ،میڈیا ،عوام اور صوبوں کو تفصیلات نہ بتانا اسے مشکوک بنارہا ہے، چین دنیا کا نقشہ بدلنے جارہا ہے جس کیلئے انتیس ممالک کے سربراہ اور 130ممالک کے سربراہ چین میں جمع ہوئے اور ایک ایسے منصوبے کو حتمی شکل دی جو تین براعظموں کے 65 ممالک کو جوڑ دے گا، چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا گیا ہے جس کا پاکستان اہم کردار ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اس کانفرنس میں شرکت کیلئے چین میں موجود ہیں، گزشتہ روز بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے وزیراعظم نواز شریف نے خطاب کیا اور چینی صدر اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں سی پیک کے حوالے سے طویل مدتی منصوبہ بندی پر حتمی مشاورت بھی کی گئی، آئندہ پندرہ برس میں سی پیک منصوبے میں کب کیا ہوگا، پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا یہ سب تفصیلات اسی طویل مدتی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، پیسہ کہاں سے آئے گا کیسے واپس جائے گااور کہاں جائے گا، چین سرمایہ کاری کرے گا یا قرضہ دے گا، پاکستانی معیشت اتنی بڑی براہ راست سرمایہ کاری کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں، یہ سب سوالات اس ماسٹر پلان کا حصہ ہیں، یہ سب اب سامنے آئے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ آج ایک انگریزی روزنامے اپنی ایک تفصیلی خبر میں سی پیک کے حوالے سے مسودے کے اہم نکات شائع کیے ہیں، آپ نے اب تک سی پیک کے حوالے سے صرف اتنا ہی سنا ہوگا کہ گوادر سے چین تک سڑک تعمیر ہوگی، توانائی کے منصوبے تیار کیے جائیں گے اور چند مقامات پرانڈسٹریل یونٹس قائم کیے جائیں گے، پاکستان میں انڈسٹری لگے گی،بجلی کی کمی نہیں ہوگی اور روزگار ہوگا، گوادر پورٹ دنیا کی ماڈرن پورٹ بنے گی اور ہمارا بہت اہم کردار ہوگا، مگر صرف اتنا نہیں ہے پندرہ برس میں اور بھی بہت کچھ ہوگا، انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے کے مطابق چین سی پیک کے راستے میں آنے والے اہم شہروں اور مقامات کی نگرانی کرے گا، خنجراب سے اسلام آباد اور سکھر سے کراچی تک فائبر آپٹک لنک بچھایا جائے گا،اس کے علاوہ سیف سٹی پراجیکٹس ہوں گے، ان شہروں کی الیکٹرانک مانیٹرنگ ہوگی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز بھی بنائے جائیں گے، مگر ان کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کی نگرانی کون کرے گا اور کنٹرول کیسے کیا جائے گا اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں گئی، انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے کے مطابق سی پیک ماسٹر پلان کے تحت چین پاکستان میں زراعت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا، زرعی شعبہ سے منسلک چینی کمپنیاں، پھلوں، سبزیوں اور گندم کو محفوظ کرنے کے لئے اپنے زرعی فارمز اور فیکٹریاں بھی لگائیں گی، فوڈ سپلائی چین میکنزم بنایا جائے گا جو پاکستان میں نہیں ہے، اس مقصد کیلئے چین پاکستان کی ہزاروں ایکڑ زمین لیز پر لے گا،یہ آج تک نہیں پتا تھا لیکن انگریزی اخبار کی خبر بتاتی ہے کہ یہ مسودے میں موجود ہے،مسودے کے مطابق چین پاکستان کی صنعت پر بھی خصوصی توجہ دے گا،سی پیک کے تحت اسٹیل، معدنیات، ٹیکسٹائل، گھریلو صنعت اور سیمنٹ سمیت دیگر صنعتوں کے فروغ کیلئے پاکستان کو تین صنعتی زونز میں تقسیم کردیا گیا ہے، ہر زون کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وہاں کون سے انڈسٹریل پارکس لگیں گے، ویسٹرن زون میں معدنی ذخائر کی کان کنی کی تجویز دی گئی ہے،اس زون میں گلگت سے خضدار تک ب12 ماربل پراسیسنگ سائٹس بنانے کی تجویز دی گئی ہے، یہاں پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پہلے انہوں نے پاکستان میں معدنیات کے کوئی ذخائر نکالے ہیں تو کیا چین کا ریکارڈ بہت اچھا ہے،چینی کمپنیاں وہاں پر لیبر کا اتنا ہی خیال رکھتی ہیں جتنا دوسری کمپنیاں رکھتی ہیں،اگر لیبر کا خیال نہیں رکھا گیا تو مستقبل میں اس بات کویقینی بنانے کیلئے پاکستانی حکومت نے کچھ کیا ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا مزید کہنا تھا کہ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے کے مطابق ماسٹر پلان میں چین نے پاکستان میں سیاسی اور سیکیورٹی خدشات کی بھی نشاندہی کی ہے، ایسے مقامات کا ذکر کیا گیا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں رہی، جہاں مغربی مداخلت، قبائلی اثر و رسوخ اور سیاسی تنازعات ہیں، انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی معیشت دو ارب ڈالر سے زیادہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری برداشت نہیں کرسکتی اس لئے چین کی طرف سے تجویز دی گئی کہ چین ہر سال ایک ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کرے گا۔اس کے علاوہ ترجیحی قرضہ بھی ایک ارب ڈالر رکھا جائے گا جبکہ غیرترجیحی قرضہ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے، چین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے فارن ایکسچینج حاصل کرنے کے ذرائع کمزور ہیں۔اس کے علاوہ سیاحت اور دیگر شعبوں پر بھی بات کی گئی ہے، انگریزی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ جون 2015ء میں سی پیک کا ماسٹر پلان پاکستان کے سامنے پیش کیا گیا مگر چند ماہ تک اس پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، چینی حکومت کی یاددہانیوں پر پاکستانی وفد نے بیجنگ جاکر اہم منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کی رائے پہنچائی، پاک چین حکام کی ایک خصوصی ملاقات دو دسمبر 2015ء میں ہوئی اور منصوبے کو حتمی شکل 29 دسمبر 2015ء کو دی گئی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اس منصوبے کی یادداشت پر دستخط کریں گے،یہ سارے فیصلے ہوتے رہے اس کی تفصیلات نہ عوام کو، نہ پارلیمنٹ کو اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کو اس طریقے سے بتائی گئی، اکتیس مارچ 2016ء کو دستخط کرنے کی ڈیڈلائن گزر گئی کیونکہ اس حوالے سے صوبوں کی تائید لینا ضروری تھا،اس مقصد کیلئے یادداشت کا دوسرا ڈرافٹ تیار کیا گیا تاکہ صوبوں کے ساتھ شیئر کیا جاسکے۔آج وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ طویل مدتی پلان پر چینی حکام سے مشاورت کرلی گئی ہے اس سے پہلے اسے جاری نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے،منصوبہ کی حتمی منظوری سے پہلے تمام صوبائی حکومتوں کی منظوری ضروری تھی اس لئے وفاقی حکومت نے صوبوں کے ساتھ اکتیس صفحات پر مشتمل رپورٹ شیئر کی حالانکہ منصوبے کی مکمل رپورٹ 231 صفحات کی تھی، صوبوں سے شیئر کی گئی رپورٹ میں کیا اہم تفصیلات ہٹادی گئی تھیں اور صرف دونوں ممالک کے درمیان دلچسپی کے معاملات سے آگاہ کیا گیاجبکہ تفصیلی منصوبہ رپورٹ میں تمام تفصیلات تھیں ، کیا وہ صوبوں سے شیئرکی گئیں؟ کیا صوبوں کو سب کچھ پتا تھا؟ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے ٹوئٹ کیا کہ چینی حکام نے دو سال تک کام کر کے پلان ترتیب دیا جبکہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا حکومت کو اس پلان پر تبصرے کیلئے صرف پانچ دن دیئے، اگر دو سال تک وفاقی حکومت کو پتا تھا تو خیبرپختونخوا کو صرف پانچ دن کیوں دیئے، اتنا اہم منصوبہ لیکن اس کے ماسٹر پلان سے متعلق نہ تو متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی حکومتوں سے ٹھیک طرح سے منظوری لی گئی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے کو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نامکمل قرار دیا ،انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ”ڈان لیکس ٹو پر بہت حیران ہوئے، سی پیک کے طویل مدتی پلان کی خبر ورکنگ ڈاکومنٹس پر بنائی گئی ہے تاکہ حتمی ڈرافٹ کو خراب کیا جاسکے، چائنا ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کو طویل مدتی پلان بنا کر پیش کیا گیا جو کہ حقائق کے برخلاف ہے، خبر میں کی گئی اینگلنگ کا مقصد سی پیک سے متعلق خدشات پیدا کر کے اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے، ہم چینی حکام سے پوچھے بغیر طویل مدتی پلان کو جاری نہیں کرسکتے تھے اور کل چینی حکام سے اس حوالے سے پوچھ لیا گیا ہے، اخبار کو وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا موقف لینا چاہئے تھا۔“ احسن اقبال درست کہہ رہے ہیں کہ ان کا موقف ضرور لیا جانا چاہئے تھا لیکن جب وہ خود اخباری رپورٹ کے بعد ٹوئٹ کررہے ہیں توبھی اپنا موقف نہیں بتارہے، اخبار کے اوپر سوالات اٹھارہے ہیں، اسے ڈان لیکس ٹو کہہ رہے ہیں، اس پلان کو پرانا قراردے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ حتمی نہیں ہے تو آج حتمی پلان بتادیتے، اخبار کی رپورٹ کو پوائنٹ بہ پوائنٹ مسترد کرتے ہوئے بتاتے کہ اخبار نے یہ غلط لکھا اصل میں یہ بات ہے، بجائے اس کے کہ حب الوطنی اور سازش کا وہی کارڈ کھیلتے جو اکثر پاکستان میں کھیلا جاتا ہے کہ یہ سازش اور خدشات پیدا کرنے کی بات ہے، احسن اقبال حقائق سامنے رکھ دیتے تو ہم آج پروگرام میں ان حقائق پر بات کررہے ہوتے اورانگریزی اخبار کی رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہوتے مگر ہمارے اپنے پاس حقائق نہیں ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ احسن اقبال کا موقف اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ سی پیک کے حوالے سے حکومت تحفظات اور خدشات دور کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بہت اہم ہے مگر پاکستانی عوام کو میڈیا یا منتخب نمائندوں کے ذریعے پتا چلنا چاہئے، صرف اکیلی وفاقی حکومت یا میاں نواز شریف اس ملک کے مستقبل کیلئے نیک خواہشات نہیں رکھتے، وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتیں بھی رکھتی ہیں ان سے شیئر کیا جائے، پارلیمنٹرینز سے شیئر کیا جائے اور اگر ان کے خدشات ہیں تو دور کیے جائیں، اگر کہیں خامیاں ہیں تو دوسروں کی رائے لی جانی چاہئے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت تنقید کے حوالے سے اہم بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کس پر تنقید ہوسکتی ہے اور کس پر نہیں ہوسکتی، تنقید سب پر ہوسکتی ہے، سوال ہر ایک سے پوچھا جاسکتا ہے، تنقید ایک مثبت عمل ہے، کوئی شخص یا ادارہ اس سے مبرا نہیں، کسی بھی معاملہ پر دو رائے موجود ہوسکتی ہیں، ہمیں مختلف رائے کا احترام کرنا چاہئے اور اس مختلف رائے کی بنیاد پر کسی کی نیت کو نہیں جانچنا چاہئے، ہم اپنے پلیٹ فارم سے اس حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں مگر تنقید اور توہین میں فرق ہوتا ہے، تعمیری تنقید اور تنقید کی آڑ میں منفی پراپیگنڈہ میں فرق ہوتا ہے، جب ادارے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں تو اس فیصلے پر تنقید کی آڑ میں منفی پراپیگنڈہ اور مذموم مقاصد کی تکمیل کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ایسا ہی رویہ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے حوالے سے اپنایا جارہا ہے، واضح طور پر لگتا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اس بات میں اپنا فائدہ نظر آتا ہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت آمنے سامنے ہو جس کا پاکستان موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہوسکتا ہے،حکومت اور فوج کو آمنے سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ منفی پراپیگنڈہ کرنے والے یہی چاہتے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کے سائبر ونگ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج کو بلاجواز تنقید اورتضحیک کا نشانہ بنانے والے عناصر کے خلاف فوری طور پر کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے، ایف آئی اے کو ہدایت دی گئی ہے کہ ان قابل مذمت سرگرمیوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے خواہ ان لوگوں کا تعلق کسی بھی پارٹی، جماعت یا پیشے سے ہو،ساتھ ہی میڈیا میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے پراپیگنڈے کے حوالے سے پیمرا نے بھی خبردار کیا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے غیرمصدقہ خبر یا تبصرہ متعلقہ ادارے کے تصدیق کے بغیر پیش نہ کیا جائے ورنہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور بعض میڈیا گروپس میں کیا ہورہاہے وہ ہم آپ کو بتاتے ہیں، نیوز لیکس سامنے آنے کے بعد سے ہی سول ملٹری تعلقات پر غیرمصدقہ اور توہین آمیز تبصرے کیے گئے، نیوز لیکس معاملہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف کی ایک ملاقات کو رپورٹ کیا گیا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم نواز شریف کو شٹ اپ کال دیدی ہے،اسی طرح بعد میں بھی سول ملٹری تعلقات پر غیرمصدقہ اور اپنے مطلب کے تبصرے کیے گئے، جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز لیکس کے حوالے سے اپنی ٹوئٹ واپس لی تو اس دن پریس کانفرنس میں بھی انہوں نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے واضح کیا کہ قوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی واضح کیا کہ سول ملٹری تعلقات بہتر ہیں، اس پورے معاملہ پر ہر طرف سے وضاحت کے باوجود منفی پراپیگنڈہ کیا گیا، اپنے مطلب کے نتائج نہ آنے پر غصہ اداروں پر نکالا گیا، اداروں نے کیا غلط کیا، وزیراعظم کو فائنل اتھارٹی کہنا کیا غیرآئینی ہے؟ وزیراعظم کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی ٹوئٹ کو واپس لینا کیا غیرآئینی ہے؟ فوج نے اپنا آئینی کردار ادا کیا، سول ملٹری قیادت مل کر بیٹھی اور دونوں معاملات کا ایسا حل نکالا جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں مگر پھر بھی حکومت کے ساتھ ساتھ فوج اور اعلیٰ عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی نیت اور پاکستان کے مفاد میں وہ کام کرتے ہیں یا نہیں اس تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تعمیری تنقید میں کوئی حرج نہیں مگر جب فوج آئین میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کررہی ہے تو بلاجواز تنقید اور جذبات کوا بھارنا، ان کی نیت پر حملے کرنا کسی صورت درست نہیں ہے، مگر یہاں بات تنقید تک محدود نہ رہی بلکہ تضحیک کی گئی، نیوز لیکس پر ٹوئٹ واپس لینے کے عمل کو 1971ء میں فوج کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے عمل سے جوڑا گیا اور یہ سب کچھ مین اسٹریم میڈیا پر کہا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ فوج کو پنجاب کی پولیس بنادیا گیا ہے،آرمی چیف کو آئی جی پنجاب تک قرار دیدیا گیا،سوشل میڈیا پر یہ ساری باتیں ہوتی رہیں کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے، ماضی میں عسکری اداروں سے کچھ غلطیاں ہوئیں اس پر تنقید ہوئی اور ہوتی ہے مگر اب جب پاک فوج نے درست کیا، جمہوریت کی بقا اور اداروں کے دائرہ کار کے مطابق کام کیا تو پھر ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔