• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ ، مریم اورنگزیب کی سیاست سے اختلاف جائز، رسوا کرناٹھیک نہیں

 اسلام آباد(طاہر خلیل )پاکستانی سیاست ایک ایسے دوراہے پر آکر کھڑی ہوئی ہے جہاںایک طرف کم سےکم ایک عشرے کی مسلسل پارلیمانی جمہوری روایت ، اس کے اداروں کومضبوطی کی نوید دے رہی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا کی سنسنی خیز، بے باک اور بے لگام آزادی جمہوری اقدار پارلیمانی روایات ، تہذیبی قدروں ، برداشت ، باہمی رواداری اور سیاسی احترام جیسی بنیادی جمہوری حدود کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔ ’’بات کرنے کی آزادی ‘‘کا مطلب ہرگز ہرگز دروغ گوئی اور کردار کشی نہیں اور آزادی اظہارکسی طور پر غلط بیانی کا نعم البدل نہیںہو سکتی ،قلم کی حرمت حق گوئی سے وابستہ ہے ۔ اورحرف صداقت کو بلند کرنا ہی حرمت اظہار کی علامت ہے ۔ یہ نقطہ میدان سیاست کےا ن تمام نو واردوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے ، جو چہروں پر رنگ مل کر گویا میدان سیاست کو ہولی کا تہوار سمجھتے ہیں۔  یہ ساری بات لکھنے کا مقصد اس بھونڈے اور مضحکہ خیز خاکے پر تبصرہ کرنا تھا جو وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ان دنوں گردش کر رہا ہے ۔ بچہ پارٹی کی سیاست گویا یہ سمجھتی ہے کہ کار زار ہستی اسی دن معرض وجود میں آیا تھا جب ’’ننھے ‘‘نے سیاسی دنیا میں آنکھ کھولی تھی ۔ اس لئے مریم کی والدہ ، والد اور سیاسی پس منظر پر ہر نوع کی کوڑی لائی گئی ہے ۔  مریم اورنگ زیب کے طرز ِسیاست سے اختلاف جائز اور قانونی حق ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیںکہ سردار کالا خان کی پوتی کو یوں رسوا کیا جائے جس کا دادا  1946میں آل انڈیا مسلم لیگ کےٹکٹ پر منتخب ہونےو الا شمالی پنجاب سے واحد رکن تھا ،جس کی رہائش گاہ پر 1945میںکشمیر سےواپسی پر قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام کیا تھا ، راولپنڈی کے باسی بخوبی جانتے ہیں کہ ان ہی  کے نام سے منسوب راولپنڈی شہر کا مشہور علاقہ ڈھوک کالا خان ہے ۔ مریم اورنگ زیب کے نانا سید محمد علی شاہ ملتان شہر کے معزز اور متمول کارخانے داروں میں سے ایک تھے جو تقسیم ہند سے پہلے سے کاٹن جننگ کاروبار سے منسلک تھے ۔ موصوف اس حد تک دائیں بازو کی سیاست پر فنا تھے کہ 1970کےا نتخابات میں ملتان کی نشست سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل جے یو پی کے مولانا سعید کاظمی ، (مولانا حامد سعید کاظمی کے والد)کےچیف پولنگ ایجنٹ تھے ۔ خاندانی رکھ رکھائو کا انداز بیگم نجمہ حمید سیاست میںبھی لے کر آئیں۔ ان کی چھوٹی بہن طاہرہ اورنگ زیب پنجاب یونیورسٹی ایم اے سیاست کی کلاس میں شرارتوں کی گواہی کلاس فیلو جاوید ہاشمی بخوبی دے سکتے ہیں ۔ ملتان کی ان دونوں لڑکیوں کی شادی دونوں کو راولپنڈی لےآئی ۔ کالج روڈ کے خواجہ محمود احمد منٹو اور رضیہ خالد کے وسیلے سے سردار عبدالقیوم خان مرحوم کی مسلم کانفرنس سے مسلم لیگ کا سفر اہل شہر بخوبی جانتے ہیں ۔ جب پیر پگاڑا نے 1987 میں اس وقت کےوزیر اعلیٰ نواز شریف کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ صدر ضیاء الحق کو بنفس نفیس میدان میں اترنا پڑا ایسے میںجس ممبر صوبائی اسمبلی نے نواز شریف کا بھرپور دفاع کیا ، ان کا نام نجمہ حمید ہے سیاسی رفاقت کا یہ وہ واقعہ ہے جو شریف خاندان کبھی نہیں بھول سکتا،رفاقت کی یہ تہذیب نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگ زیب نے پرویز مشرف کےسخت دور میں بھی نبھائی جب میاں صاحب کےبڑے بڑے چاہت کے دعویداروں نے یک لخت منہ موڑ لیا تھا ۔ اور اٹک قلعہ میں شوہر سے ملاقات کےلئے جانے والی کلثوم نواز کو کوئی راستے میں پانی پلانے کا روادار نہ تھا ایسے میں جو دروازہ اور دل بیگم کلثوم نواز کو ہمیشہ کھلا ملا وہ نجمہ حمید اور طاہرہ کا تھا۔ سیاسی تاریخ نہیں بھولی کہ بیگم کلثوم نواز نجمہ حمید کے گھر پر ہی قید ہوئیں ۔ خالہ اور ماں کی یہ ساری سیاسی جدوجہد مریم اورنگ زیب نے اپنے بچپن سے دیکھی جو بہت چھوٹی عمر میں ٹریفک حادثے میں اپنی ایک ٹانگ قریب قریب گنوا چکی تھی یہ تو مریم کی ماں طاہرہ کی جنونیت تھی جو اس نے اپنا سارا زیور ، جائیداد اور اثاثہ لٹا کر پورے 15سال کے متواتر علاج کے بعد مریم کو کھڑا کر دیا ۔ میدان سیاست میں پیراشوٹ بن کر اترنے والے تماش بین ازرِہ کرم اتنی خاک نہ اڑائیں کہ خود ان کے چہرے داغدار ہو جائیں ۔
تازہ ترین