دنیا کی کوئی تخلیق ’’ماں‘‘ کا نعم البدل نہیں ہوسکتی‘ماں کرہ ارض پروہ واحد ہستی ہے جیسے رب کریم نے ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ آخری سانس تک اپنے عظیم کردار کو بخوبی نبھاتی چلی جاتی ہے۔ایک عورت کا روپ بحیثیت بیوی، بیٹی اور بہن کی صورت میں تو اہمیت کاحامل ہے ہی لیکن ’’ماں‘‘ کے درجے پر فائز ہونے کے بعد وہ عظمت کی ان بلندیوں تک رسائی حاصل کرلیتی ہے کہ جنت اس کے قدموں تلے آپہنچتی ہے۔14 مئی2017ء بروز اتوار پاکستان بھر میں ’’Mother Day‘‘ زور وشور سے منایا گیا۔دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے بہت سے پروگرام ’’سیمینارز‘‘ کانفرنسیں اور دیگر نوعیت کی سرگرمیوں کا انعقاد کیاجاتاہے،جن میں عموماً ایک طرف تو مائوں کے عظیم کردار کو سراہا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں درپیش مسائل،مشکلات اور تحفظات کو بھی زیربحث لایاجاتاہے اور ایسے عملی اقدامات اور عوامل کی جانب نشاندہی کی جاتی ہے جن کی بدولت کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوا جاسکے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں قدرت کی اس انمول تخلیق کو جہاں دیگر مسائل اور تکالیف کا سامنا ہے،وہاں مائوں کی صحت عرصہ دراز سے مسائل کا شکار رہی ہے،بالخصوص دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تو صورتحال بدترین شکل اختیار کرچکی ہے۔ڈیڑھ کروڑ سے زائد خواتین مختلف اقسام کی معذوری، وبائی امراض اور دیگر نوعیت کی چھوٹی،،بڑی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ہرسال تقریباً 515000عورتیں دوران حمل اور زچگی سے متعلق پیچیدگیوں سے نبردآزما ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں Meternal Mortalityکی شرح 276/100,000 ہے،جو بہ نسبت دیگر ہمسایہ سائوتھ ایشین ممالک سے زیادہ ہے۔
کچھ ماہ قبل،سندھ کے مختلف خصوصاً پسماندہ علاقوں میں جانے کاموقع ملا۔اگرچہ جانے کامقصد توکچھ اور تھا،مگر وہاں پہنچ کر ہمہ وقت توجہ کسی اور طرف ہی رہی۔جوں جوں لوگوں سے ملتا رہا،جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،افسوس، مایوسی اور پریشانی کا احساس غالب رہا، وجہ وہاں موجود ہر ’’نفس‘‘ کے چہرے پر دکھ بھری کہانی کی وہ پرچھائی تھی جو دیکھنے والے کو صاف نظر آرہی تھی۔کون سے ایسے مسائل اور تکالیف تھیں،جن کا سامنا وہاں موجود لوگ نہیں کررہے تھے۔تعلیم، روزگار،خوراک، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، اذیتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں عرض کہ بقول شاعر
زیست گزری بھی، تو کچھ اس طرح
خواہش مرگ رہی ساتھ ساتھ
اس افسوسناک صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ پریشان کن تھی وہ صحت سے متعلق امور کی تھی۔یوں تو تمام ہی غربت زدہ علاقوں میں زندگی آخری سانس لیتی نظرآرہی تھی، لیکن تھر جیسے علاقے میں تولفظ ’’موت‘‘ شاید رچ بس سا گیاتھا۔بیشتر خواتین مختلف نوعیت کی چھوٹی‘بڑی اور موذی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔بچے،بالخصوص نوزائیدہ بچے،اپنے ماں، باپ کی بے بسی اور بے کسی کی قیمت چکاتے نظرآتے تھے۔
نہ پانی تھا،نہ پیٹ بھر روٹی البتہ کچھ برائے نام مسکن اپنے مکینوں کو کسی حدتک دھوپ کی حدت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ماں کی نظروں کے سامنے بچے، اور بچے کے آگے رکھا اپنی ماں کا ’’بے جان وجود‘‘ کسی آزمائش سے کم نہ تھا ۔ احساسات،برداشت پر غالب آنے لگے تو کراچی واپس آجانے ہی میں عافیت سمجھی۔پھر’’ Mother Day‘‘ آیا اور چلابھی گیا۔اس ضمن میں متعدد محافل کا انعقاد ہوا۔ٹیلی وژن پر بہت سے پروگرام معہ اشتہارات نشرہوئے۔بہت سی تحریریں اخبارات کی زینت بڑھاتی نظرآئیں،‘لیکن عملی طورپرکچھ ایسانہ دیکھا گیا جوان بدنصیب لوگوں خصوصاً ’’مائوں‘‘ کے زخموں پر مرہم کاکام کرسکتا یا کم از کم اداس چہروں پر چند لمحوں،محض چند لمحوں کی مسکراہٹ بکھیردیتا’ہاں‘ البتہ انہی دنوں اخبارات میں شائع ہونے والی کچھ خبریں پڑھ کر تقویت ضرور ملی،خبریں سندھ کے پسماندہ علاقوں میں ’’ماں اور بچے‘‘ کی صحت کے حوالے سے جاری ایک پروگرام سے متعلق تھیں،الفاظ متاثر کن تھے اسلئے مزید معلومات حاصل کرنے کا ارادہ ہوا بعدازاں تحقیق یہ معلوم ہوا کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں ایک فلاحی پروگرام جس کا بنیادی مقصد مائوں اور بچوں کی صحت سے متعلق امور پر مشتمل ہے،کام کررہاہے۔پروگرام کاہدف ایک ایسے ’’ماحول‘‘ کی تعمیر ہے جہاں ماں اور بچہ صحت مند زندگی گزارسکیں،جہاں ایک عورت ان بیماریوں کے ہاتھوں، جو قابل علاج ہیں اپنی زندگی گنوابیٹھی،جہاں زندہ اور صحت مند بچے،اپنے مستقبل کیلئے دیکھے گئے خوابوں کو پورا کرسکیں۔اے کاش، ایسے تمام تر اقدامات،چاہے وہ حکومتی ،نجی، کسی بین الاقوامی NGO یاپھر کسی فرد واحد کی جانب سے کیوں نہ ہوں، عمل میں لائے جائیں کہ میرے وطن کے ان گوشوں میں موجود ہرنفس کوزندگی خوبصورت لگنے لگے،وہ اسے جیناچاہے اور مرنے کی خواہش دم توڑ دے۔
.