• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
A Reality

شیما صدیقی ۔۔۔ رقیہ میرے بچوں کی میڈ ہے ۔ صاف ستھری اور خیال رکھنے والی لڑکی ہے۔آج بخار کی وجہ سے مجھے چھٹی کرنا پڑی ۔ کوفت ہو رہی تھی کہ پہلے ہی صفائی والی خاتون نہیں آئیں ۔ شکر ہے کہ رقیہ نے چھٹی نہیں کی تھوڑی دیر سے ہی سہی ، آگئی تھی میرے بچوں کو سنبھالنے۔ باجی آپ آج آفس نہیں گئیں ؟ ’ ہاں بخار کی وجہ سے نہیں گئی ۔ تمہیں دیر ہو گئی ۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ تم کو کال کر کے جلدی بلا لوں ۔ بچے الگ پریشان کر رہے تھے ۔ دودھ دے دیا تھا میں نے ان کو ۔ اب تم دیکھ لو ۔ یہ ہاتھ میں کیا ہے؟ ‘ ’ باجی مٹھائی ہے ۔ کل میرا رزلٹ آگیا ۔میں بی گریڈ میں پاس ہو گی ۔‘ میں نے اس کا مسکراتا ہوا چہرا دیکھا اور مبارک باد دی ۔ تمھارا بی گریڈ بھی اے ون کے برابر ہے ۔تم نے کام کاج اور بیماری میں بھی اپنی تعلیم کو جاری رکھا ۔ لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے بچے ہر وقت کام میں لگا کر رکھتے ہوں گے۔‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’ واقعی تم بہادر ہو َ ، حوصلہ مند ہو۔‘ میں جانتی تھی کہ وہ گردے کی مریضہ ہے ۔ دوائیں کھاتی ہے۔ ’شاباش رقیہ ! اچھی بات یہ ہے کہ تم نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ ‘ آج گھر پر ہونے کی وجہ سے بہت عرصے بعد میری اس سے اتنی تفصیلی گفتگو ہو رہی تھی ۔ ورنہ روز کی بھاگ دوڑ میں تو بس بچوں کو یہ کھیلا دینا ۔ وہ دیکھ لینا ۔ ہی رہتا ہے ۔میں بھی بچی کے ساتھ خوش تھی ۔ گولی کھانے اور تھوڑا سو لینے سے میرا بخار بھی کچھ کم تھا کہ رقیہ چائے بنا کر لے آئی ۔ میں جانتی اور مانتی بھی تھی کہ یہ اس کا کام نہیں تھا لیکن وہی اس کا خیال رکھنے کا انداز ۔ اور اس مزاج کی میڈ جس کسی بھی ورکنگ وائف کو مل جائے ۔۔۔ میرے ہی نہیں میری ساس کے دل سے بھی دعا نکلتی ہے کہ اللہ اس کو جیتا رکھے۔ ‘ میں نے اس کی خوشی محسوس کر تے ہوئے اس سے باتیں شروع کر دیں ۔ کیا سوچا تھا کہ کیا بنو گی ؟ باجی! سو چا تھا ٹیچر بنوں گی لیکن آٹھویں کلاس سے ہی گردے کی بیماری اور پھر علاج میں ہی تین چار سال سے زیادہ سے زیادہ گزر گئے ۔ آپ تو جانتی ہیں ، ابا کی دکان ہے ۔ ہم پانچ بہن بھائی اور میرا تیسرا نمبر ۔ اماں کے ساتھ کبھی ایک بار پرائیوٹ اسپتال گئی تھی لیکن پھر بس سرکاری اسپتال ۔ باجی اس وقت میں بھی روتی رہتی تھی۔ میں بچی ہی تو تھی ! تکلیف وہ بھی اتنی شدید ۔ ایک سال تو اسکول ہی نہیں گئی۔پورا گھر پریشان بلکہ گلی، محلہ ہر کوئی پوچھنے آتا تھا۔ مسئلہ وہ ہی کہ ایک ناکارہ گردے کے ساتھ میری بارہ سالہ زندگی کی ڈور آگے کیسے چلے گی ؟ کہاں سے آئے گا گردہ ؟علاج ،روپیہ، پیسہ سب کیسے ہوگا؟ بس باجی اللہ بھالا کرے عالمگیر ویلفیئرٹرسٹ والوں کا ۔میرے پورے علاج کا خرچہ ان لوگوں نے ہی اٹھایا ۔ ان لوگوں کی وجہ سے ہی میں آج اس قابل ہوں کہ انٹر کا امتحان پاس کر لیا اور ماشااللہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔زذندگی دینا تو صرف اللہ کا کام ہے لیکن مدد بندے ہی کرتے ہیں ۔ اسی لئے تو میںآپ سے کہتی ہوں اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نا ہوا کریں ۔ یقین کریں! میرا پہلا آپریشن ہوا لیکن ناکام ۔آپ سمجھ سکتیں ہیں کہ ایک آٹھویں جماعت کی بچی کی کیا حالت ہوئی ہوگی ۔ جو پڑھنا چاہتی تھی لیکن پچھلے کئی سالوں سے اسپتال سے گھر کر رہی تھی جس کی پرانی ہم جماعت میٹرک کا آخری پرچہ دے کر اس کی عیادت کو آئیں تھیں ۔ باجی اس وقت تکلیف اور آپریشن کی ناکامی سے آنسو رکتے ہی نہیں تھے ۔ اور نا ہی اماں ابا کی آس ۔ میں نے دیکھا کہ اماں پڑوسن خالہ سے کہہ رہی تھیں کہ ڈاکٹروں نے اپنا کام کر دیا تھا لیکن اللہ جو چاہے کیونکہ ٹرسٹ والوںوالوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ میرا دوسرا آپریشن کرائیں گے ۔ اباجی الحمداللہ ! دوسرا ٓپریشن کامیاب ہوا ۔ا ور اب میں2012سے دواؤں پر ہوں ۔داوئیں کھاتی ہوں اور جیتی ہوں اور جینا چاہتی ہوں ۔‘ ’ واہ رقیہ ! تم تو بڑی حوصلہ مند ہو ۔‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ وہ اٹھی و لائٹ بند کر کے کمرے سے باہر چلی گئی اور بچوں کو آوازیں دینے لگی۔

تازہ ترین