بینظیر بھٹو نے اپنی آخری جلاوطنی سے وطن واپسی پر لاکھوں لوگوں کی طرف سے فقیدالمثال استقبال کرنےپر اپنی دھرتی کو بوسہ دینے سے بھی قبل بوسہ اپنی اس سہیلی اور سیکرٹری ناہید خان کو دیا تھا۔ اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کی وہ دوپہر جب فوجی آمر مشرف کی حکومت نے یا اس ملک کے اصلی تے وڈے چوہدریوں نے کراچی میں اٹھ کرآنے والے ایک اور سمندر کو یعنی تیس لاکھ انسانی سروں کی جوار مد وجزر کو خودکش بمبازوں کے ذریعے منتشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ کون کہتا ہے سب کے سب سندھی صوفی مزاج قوم ہیں۔ کہتے ہیں بینظیر بھٹو اور اسکے قافلے پر کراچی کارساز میں خودکش حملے کا سرغنہ بھی ایک سندھی ہی تھا۔ اس حملے میں پونے دو سو کے قریب پی پی پی جیالے اور عام لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد لیاری کے جوانوں کی شامل تھی۔
’’دھرتی تجھ کو میری چمی آدھے میں رہ جائے گی" اس وقت بھی نہ جانے مجھے کیوں شیخ ایاز کی یہ سطر یاد آ گئی تھی جب میں نے ٹیلیوژن چینلوں پر بینظیر بھٹو کو اپنی اس سہیلی کا چہرہ چومنے کی فوٹیج دیکھی تھی۔ اس وقت نیویارک میں دس گھنٹے پاکستانی ٹائم سے آگے رات تھی اور میں طارق علی کا ڈرامہ ’’چیتا اور لومڑی‘‘ دیکھ کر لوٹا تھا جس کی کہانی ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے آمر جنرل ضیاالحق کےہاتھوں دھڑن تختہ ہونے سے اسکے تختہ دار تک سفر اور ضیا بھٹو کشمکش کے پس منظر میں تھی اور نیویارک کی ان راتوں میںدکھائے جانے والے اس ڈرامے کا ہدایتکار جاوید جبار تھا۔ کہ ہاں اسی رات پھر پاکستانی نیوز چینل دیکھتے ایسا وقت بھی آیا جب پورا ٹی وی اسکرین دھماکہ اور پھر آگ کا گولہ بن گیا اور اسکو دیکھنے والی ہر آنکھ بھی خون۔ اس خون آشام حملے کے وقت بھی بینظیر کے اس استقبالیہ ٹرک کے کیبن میں بنی ہوئی آرام گاہ میں اس کے ساتھ ناہید خان تھی۔ اور اس کی زندگی اور جدوجہد کی اس آخری شام بھی جب اسکے اوپر پنڈی میں دوسرا بڑا دہشت گرد حملہ ہوا جس حملے کے بعد جیسے میں نے کہا پاکستان کے وفاق اور اسکے صوبوں کے درمیان ’’سیفٹی والو‘‘ ٹوٹ گیا۔ اگرچہ پاکستان میں آصف زرداری سمیت کئی لوگ ہیں جو اس راولپنڈی کی شام غریباں بینظیر بھٹو کے ساتھ اسکی گاڑی پر سوار تمام کے تمام لوگوں کو "شبہ کا فائدہ " نہیں دیتے لیکن میں اس سوال کا جواب لفظوں سے زیادہ سامنے بیٹھی ہوئی ناہید خان کی آ نکھوں میں ڈھونڈنے لگا تھا جو شاید اس شام سے آج تک کتنی بھی کوشش کریں لیکن ’’بی بی‘‘ کے ذکر پر بھیگ سی جاتی ہیں۔ وہ شام جس کے لئے میں نے اپنی نظم میں کہا تھا:
وہ سندھ مدینے کی بیٹی
وہ نئی کہانی کربلا کی
وہ خون میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھیں بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
گزشتہ ہفتے نیویارک کی اک شام اک ریستوران میں بیٹھے پاکستان کی سیاست کے اس تاریخی جوڑے سے میری رسمی اور غیر رسمی بات چیت ہورہی تھی۔ ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی۔ جنہیں شکایت موجودہ زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ درگت بننے کا تاسف اس کی قیادت کے ہاتھوں نہیں اپنے ان پارٹی کے ساتھیوں سے تھی جو بھٹو کی پارٹی کے زرداری پارٹی بننے اور ملکی سطح سے صوبائی سندھ تک بن جانے پر کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کرنے پر تھی۔ ’’بس سندھ میں بھی اس لئے پارٹی میں یہ لوگ اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے موجود ہیں کیونکہ پارٹی کی حکومت ہے‘‘ ڈاکٹر صفدر عباسی کہہ رہا تھا جو اپنی نوجوانی سے لے کر بینظیر بھٹو کے ساتھ رہا تھا اس کی ہر سیاسی جدوجہد میں شریک۔ لاڑکانہ کے کلہوڑا خاندان کی بہو سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر مسز اشرف عباسی کا یہ چھوٹا بیٹا تب جلاوطنی میں بھی ضیاالحق کی فوجی آمریت کے دنوں میں ساتھ رہا تھا جب آج کی پی پی پی میں شامل اکثر لوگ سوائے سید قائم علی شاہ، خورشید شاہ اور مولا بخش چانڈیو کے ایک نہ دوسرے دور میں آمر ضیاءالحق کے حامی رہے۔ لندن میں وہ اور ان کے ساتھی جریدہ ’’عمل‘‘ نکالتے جو پاکستان کے کونے کونے تک جاتا۔ مجھے اس وقت کے جلاوطن جیالے اور اپنے دور کے طالب علم رہنما صفدر ہمدانی المعروف چاچا ہمدانی نے بتایا تھا کہ بینظیر بھٹو کو ایک ایسی قابل اعتماد مددگار کی ضرورت تھی تو انہوں نے راولپنڈی کی اس جیالی لڑکی ناہید خان کا نام دیا تھا۔ ایک دن لندن میں بینظیر بھٹو (یا ان کی سہیلی یاسمین نیازی کے) کے فلیٹ کی گھنٹی بجی تو دروازے پر یہ لڑکی ناہید خان کھڑی تھی۔ وہ دن اور پھر وہ دن جب بینظیر بھٹو نے ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی شام خونی لیاقت باغ میں اس کی گود میں ہی آخری سانس لی ’’مجھے پریشر محسوس ہوا کہ دیکھا خون میں لت پت بی بی میری گود میں آن گری‘‘ ناہید خان نے بعد میں بینظیر بھٹو کی زندگی پر کتاب لکھنے والی صحافی اینا سوورووا کو بتایا تھا۔ ناہید خان مجھے بتا رہی تھیں ’’بی بی کے ساتھ میرے گزارے جانے والے ہر چوبیس گھنٹے ایک ایک کتاب بنتی ہے۔‘‘ جی ہاں۔ وہ مردانہ سماج میں ان کے خلاف تمام حملوں، سازشوں، بدتمیزیوں اور افواہوں کے بیچ ان کے گرد اک ساتھی، ایک رازداں، ایک ہم نفس، ایک سہیلی، ایک سیکرٹری، محافظ، ایک بہن اور ایک ایسا کاندھا جس پر وہ سر رکھ کر رو سکتی تھی۔ ہنس سکتی تھی بنی رہی۔
وہ پھر ان کا لاہور پر تاریخی اترنا ہو، کہ چودہ اگست انیس سو چھیاسی کو میرپور ماتھیلو سے برقعہ پہن کر خیبر میل پر سوار اور لائل پور کے اسٹیشن پر گرفتاری، یا پھر ستر کلفٹن سے پولیس کا محاصرہ توڑ کر ہزاروں جیالوں کی معیت اور آنسو گیس اور گولیوں کی بارش میں لیاری پہنچ جانا ہو کہ انیس سو اکانوے میں ’’گو بابا گو‘‘ لانگ مارچ کہ بانوے میں لاہور ہائیکورٹ میں بینظیر کے خلاف غنڈہ گردی،کہ خود بینظیر کے جلسوں میں خراب مردوں کا لاہور کے مال یا حیدرآباد کی ریشم گلی جیسی حرکات ناہید خان ہمیشہ بی بی کی ڈھال بنی رہی۔ یعنی استاد راحت فتح علی خان کے بولوں میں ناصر کاظمی کہ ’’غم ہے یا خوشی۔۔۔۔ آفتوں کے دور میں، چین کی گھڑی ہے تو‘‘
وہ جو اپنی بی بی کی انتہائی مغروری کی حد تک سخت گیر ہیڈ مسٹریس ٹائپ سیاسی سیکرٹری تھی۔ بی بی تو بہت دور پی پی پی کے بڑے بڑے خان خانانوں جیالوں کی اس باجی ناہید سے جان نکلتی تھی۔ ’’یہ سگریٹ یہاں کیوں پھینکی! یہاں سے اٹھائو اور باہر جا کر پھینکو‘‘ وہ سندھ کے وڈیرے پنجاب کے چوہدریوں کو ڈانٹ کر کہتی۔ میں فلاں سینیٹر کا بیٹا ہوں ’’تو‘‘ سندھ میں زرداری کی شوگر ملوں کے انچارج اور ان کے پیٹارو کے دوست کے ایک ہونہار کے تعارف پر ناہید خان نے اسے جواب میں کہا تھا۔
پارٹی کے اندر مرد چاہے خواتین ان سے والہانہ محبت کرتے یا ناپسندیدگی لیکن ان کے سامنے شاید ہی۔ ’’ہمیں اس حال پر پہنچانے والی ناہید خان ہے‘‘ پی پی پی کی تاریخ ساز جیالی اور ایک باجی شاہدہ جبین کو کہتے سنا گیا۔ لیکن ایک ایسی ہی ایک اور جیالی اور سابق رکن پنجاب اسمبلی ساجدہ میر اپنے ساتھیوں سے کہتی تھیں ہم جو کچھ بھی ہیں پارٹی میں ناہید خان کی وجہ سے ہیں۔ ناہید خان کہیں تو میں یہ اسمبلی رکنیت قیادت کے منہ پر مار کر چلی جائوں۔‘‘
ناہید خان ہوں کہ ساجدہ میر، پی پی پی ہو کہ کوئی اور پاکستان کی بڑی پارٹی اس میں عورتیں کس طرح ایندھن کی طرح استعمال ہوتی ہیں اور کس طرح اخباری فوٹو کی پارٹی سیاست بنتی ہے وہ ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے پھر کبھی سہی۔