جمہوریت کی ماں سمجھے جانے والے ملک برطانیہ کے عوام آج 8جون کو عام انتخابات کے موقع پر ایوانِ زیریں ہاؤس آف کامن کے ساڑھے چھ سو پارلیمانی حلقوں کے اراکین کے انتخاب کیلئے اپنا حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں۔برطانوی سیاست کا محورروایتی طور پر دو بڑی سیاسی جماعتیں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے پارٹی لیڈران 1935سے تاحال وزرائے اعظم کا عہدہ سنبھالتے آرہے ہیں، دیگر چھوٹی جماعتوں میں لبرل ڈیموکریٹس، اسکاٹش نیشنل پارٹی، گرین پارٹی، یوکے انڈیپنڈنس پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ موجودہ وزیراعظم تھریسا مےکا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے ہے جنکی جماعت گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں ہاؤس آف کامن کی330نشستوں پر فاتح قرار پائی۔فکسڈ ٹرم پارلیمنٹ ایکٹ 2011کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد مئی 2020میں کیا جانا تھا لیکن برطانوی وزیراعظم نے قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کرکے سیاسی ماحول گرما دیا، حالیہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردانہ حملوں، برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ریفرنڈم اور اسکاٹ لینڈ کا برطانیہ سے آزادی کے دیرینہ مطالبے کے تناظر میںماضی کی عظیم سامراجی طاقت تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑی نظر آتی ہے، برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس 18اپریل کو عام انتخابات کے اعلان کے ایک ماہ کے اندرلگ بھگ گیارہ لاکھ نوجوانوں نے اپنے ووٹ کا اندراج کروایا جس میں چھ لاکھ نوجوان ووٹرز کی عمر پچیس برس سے کم ہے، حالیہ برطانوی عام انتخابات کے موقع پر جہاں لگ بھگ 48ملین بالغ برطانوی، آئرش اور برطانوی قوانین شہریت کے تحت کامن ویلتھ شہری اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کریں گے وہیں کرپشن اور دیگرسنگین سماجی جرائم پر سزایافتہ اور ذہنی مریضوں پر پولنگ میں حصہ لینے کی قانونی ممانعت ہے، برطانیہ سے باہرموجود شہریوں کو بذریعہ ڈاک یا پراکسی ووٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ تقسیمِ برصغیر سے قبل پاکستانی خطہ برطانوی سامراج ہی کا ایک اہم حصہ رہا ہے جہاں کے بسنے والوں کا جنگ عظیم اول اور دوئم کے موقع پر برٹش راج کے پرچم تلے دادِ شجاعت دینا تاریخ کا انمٹ باب ہے۔ بعد ازاں نوآبادیاتی نظام کے اختتام کے بعد برطانیہ اپنی عظیم الشان سلطنت جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھاکو محدود کرنے پر مجبور توہو گیا لیکن برطانوی تاج سے الگ ہوجانے والے 52 ممالک پر مشتمل دولت مشترکہ کامن ویلتھ کے قیام نے برطانیہ کا عالمی منظرنامے پر قائدانہ کرداربرقرار رکھا، آج برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم کی قیادت میں دولت مشترکہ دنیا کی کل آبادی کے تیسرے حصے پر محیط ہے اور چھ براعظموں میں بسنے والے لگ بھگ ڈھائی بلین باشندوں کے مابین فروغِ جمہوریت، عالمی امن، سماجی ہم آہنگی، غربت کے خاتمے اورآزادانہ تجارت کے حوالے سے سرگرم ہے۔ پاکستان دولت مشترکہ کا اہم رکن ملک اور برطانیہ سے قریبی دوطرفہ تعلقات رکھتا ہے لیکن نائن الیون اور عالمی دہشت گردی کے واقعات نے پاکستانیوں کی ساکھ کو شدید مجروح کیا ہے، بالخصوص عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت اور لندن دھماکوں میں پاکستانی شدت پسندوں کے مبینہ ملوث ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق فی الوقت برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی تعداد گیارہ لاکھ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے جسکی بناپر برطانیہ کو پاکستانی باشندوں کا یورپ میں سب سے بڑا گڑھ قرار دیا جاتا ہے، پاکستانی نژادشہری برطانیہ کی دوسری بڑی اقلیتی کمیونٹی ہے جودیگر طبقات کے شانہ بشانہ برطانوی سماج کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے،متعدد پاکستانی نژاد سیاستدان برطانوی پارلیمان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، موجودہ ہاؤس آف کامن کے گزشتہ انتخابات میں دس پاکستانی سیاستدان کامیاب ہوئے تھے جن میں نصف کی تعداد خواتین کی ہے۔ پاکستانی نژادچوہدری محمد سرور کو پہلے مسلمان ممبربرطانوی پارلیمنٹ جبکہ صادق خان کو پہلے مسلمان وزیر کابینہ اور میئر لندن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے،برطانوی میڈیااپنی رپورٹس میں پاکستانی نژاد سیاستدانوں کو اپنی اعلیٰ کارگزاری کی بنا پر برطانوی معاشرے کیلئے قابلِ تقلید مثال اور روشن ستارے قرار دیتا ہے، دیگر سیاسی قدآور شخصیات میں لارڈ نذیراحمد، ساجد جاوید، سعیدہ وارثی اور لارڈ طارق احمد شامل ہیں۔روایتی طور پر لیبر پارٹی کو پاکستانی نژاد باشندوں کی پسندیدہ سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانیوں کا رحجان کنزرویٹو پارٹی کی طرف بھی ہے جبکہ برطانوی سیاست میں تیسری قوت کے طور پر نووارد جماعت لبرل ڈیموکریٹس بھی پاکستانیوںکی حمایت حاصل کرنے کی جستجو میں ہے، انتخابی نتائج 2010 کے حوالے سے برطانوی اقلیتوں پر کی گئی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق 60فیصد پاکستانیوں نے لیبر پارٹی، تیرہ فیصد نے کنزرویٹو پارٹی جبکہ 25فیصد نے لبرل ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا،دوسری طرف کنزرویٹو فرینڈز آف پاکستان کے سربراہ مائیکل واڈ پاکستانی نژادبرطانوی شہریوں، پاکستان اور کنزرویٹو پارٹی کے مابین قریبی خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں، برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر کابینہ سعیدہ وارثی کو گزشتہ عام انتخابات کے بعد چیئرمین آف کنزرویٹو پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدے پر بھی فائز کیا گیا جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے سجاد کریم یورپی پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے یورپی پارلیمنٹ فرینڈز آف پاکستان کے بانی چیئرمین بھی ہیں۔تمام تر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے باوجود حالیہ انتخابات میں 30پاکستانیوںکو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹ دیئے گئے ہیں جس سے برطانوی سیاست میں انکے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرو رسوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ برطانوی انتخابی مہم میں جہاں پاکستانی نژادشہری اپنے سیاسی شعور کی بدولت انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں وہیں سنگین سماجی مسائل کا سامنا بھی کررہے ہیں جن میں سرفہرست شدت پسندانہ رویوں کا سامنا ہے، حالیہ لندن دھماکے کے مبینہ دہشت گردپاکستانی نژاد خرم بٹ کے حوالے سے برطانوی سیکورٹی ماہرین کاکہناہے کہ وہ پاکستان نہیں بلکہ برطانیہ میں انتہاپسندی کی طرف مائل ہوا۔قطع نظر اسکے کہ برطانیہ میں آئندہ حکومت کونسی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے،فاتح جماعت کی اہم ترین حکومتی ترجیحات میںبرطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے طریقہ کار وضع کرنا، دہشت گردی کا خاتمہ، اقتصادی استحکام اور اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے آزادی سے متعلق فیصلہ کرنا ہی ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر پاکستانی تارکین وطن بیرون ملک قیام کے دوران اپنے آپ کو پاکستانی اقدار کا پرچارک سمجھے، اب جبکہ پاکستان میں آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کی بدولت دہشت گردی پر کافی حد تک قابوپالیا گیا ہے تو پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کو بھی اپنی صفوں سے کالی بھیڑوںکو نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے، برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے ہم وطنوں کوباور کروانا چاہیے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا قومیت نہیں ہوتی، برطانیہ ماضی میںآئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا نشانہ بنتا رہا ہے، حالیہ لندن دھماکوں میں ملوث ایک دہشت گرد کے پاس آئرش شناختی دستاویزات کے استعمال کابھی انکشاف ہوا ہے، ایسی صورتحال میں تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو پاکستان سے بلاجواز نتھی کرنا سخت ناانصافی ہے۔میں آج برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال نہایت سوچ سمجھ کر کریں اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر پاکستان اور برطانیہ میں بسنے والے امن پسند حلقوں کو قریب لانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں،میری نظر میں برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کا عام انتخابات میں بھرپور کرداربلاشبہ شدت پسند رویوں کو شکست دیتے ہوئے جمہوری قوتوں کو تقویت بخشے گا،وہیں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے بیشتر قوانین برطانیہ کی طرزپر ہیں، اگربرطانیہ میں گیارہ لاکھ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں30پارٹی ٹکٹ جاری کرکے قانون سازی کے عمل میں شریک کیا جاسکتا ہے تو پاکستان میں بھی جمہوریت کی ماں برطانیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیرمسلم اقلیتوں کو آبادی کے تناسب سے کم از کم پندرہ سے بیس انتخابی حلقوں سے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ بھیجنے کیلئے دہرے ووٹ کا حق دینا ضروری ہے اور اس سلسلے میں تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں کو آئندہ الیکشن میں غیرمسلم امیدواروںکو پارٹی ٹکٹ جاری کرکے جمہوریت پسندی کا ثبوت دینا چاہیے۔