پورے ہوش وحواس اورسمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود کوئی مخبوط الحواس ہی ہوگا جو کسی بھی اختلاف رائے اور تنقید کے نتیجے میں آپ پر گرنے والے تحریک انصاف کے ’’ان گائیڈڈ میزائلوں‘‘ سے واقف نہ ہو۔ پھر بھی وہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت کی کسی کمی یا خامی کے بارے میں کچھ لکھنے کی جسارت کرے۔ تاہم ان کی گالیاں سننے کے بعد اور کچھ ہو نہ ہو یہ یقین مزید پختہ ہوگیا کہ تعلیم اورعلم ووجدان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تنقید کے جواب میں گالیاں دینے والے یہ سب تعلیم یافتہ اگر کچھ علم بھی حاصل کر لیتے تو ان کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کی قدر مزید بڑھ گئی ہے جنہوں نے تمام تر سختیوں کے باوجود بھی میڈیا کو کبھی گالی نہیں دی اور آج بھی نہیں دیتے کیونکہ وہ تنقید کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے برداشت کرتے ہیں۔ ایک قومی اخبار جو روزانہ کالاباغ ڈیم اور پختونخوا کے معاملے پر اے این پی کو سخت لتاڑتا تھا ہم اس کے پشاور میں رپورٹر تھے یہ اخبار روزانہ اپنے اداریوں میں اے این پی کی سرجری کرتا تھا لیکن کبھی کسی اے این پی والے کی زبان سے ہم نے گالی نہیں سنی کیونکہ وہ جماعت اس بات کو سمجھتی تھی کہ میڈیا اختلاف اورتنقید کا حق رکھتا ہے اور وہ بطور سیاسی جماعت اسے ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس اخبار نے بھی قوم پرست جماعت کو ہمیشہ اس کا حق دیا۔ یعنی خبروں میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری۔ ہاں جہاں اس کا بس چلتا یعنی ادارتی صفحے پر وہ اے این پی کی چمڑی ادھیڑ دیتا تھا۔ یہ سب مہذب کھیل دیکھنے کے بعد اب جب تحریک انصاف کے زمانے میں قدم رکھا تو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی مخالفت تو ایک طرف صرف اس پر تبصرہ کرنے والے میڈیا کو بھی نانی یاد آگئی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ فائدہ بھی ہوا کہ تعلیم یافتہ انتہا پسندوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایک ساتھ دیکھنے کو مل گئی تاہم آپ پر کالم کے جواب میں تیر برسانے والوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے باہر کے علاقوں سے ہوتا ہے کیونکہ صوبے کے اندر موجود کارکن بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ان کے طرز حکمرانی اور کامیابیوں کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے وہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں۔ اس سب تمہید کا مقصد ایک ہی ہے کہ ہم یہ بتاسکیں کہ جس کام میں اب ان سطروں کے بعد ہاتھ ڈالنے لگا ہوں اس کے نتائج سے پوری طرح باخبر ہوں کہ اس کالم کو پڑھے بغیر جواب میں گالیاں کہاں کہاں سے پڑیں گی۔ اب ہم پوری ایمانداری سے بتاتے ہیں آپ کو، خوابوں اورحقیقت کے دو خیبر پختونخوائوں کے بارے میں۔ اس کا مقصد تنقید نہیں بلکہ غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے جو خیبرپختونخوا پر اس جماعت کی چار سالہ حکمرانی کے بعد تحریر کرنا مجھ جیسے ہر صحافی کا حق ہے۔
ایک پختونخوا تو وہ ہے جو عمران خان صاحب اور ان کے پارٹی رہنمائوں نے تقریروں میں لوگوں کو بتایا۔ اور خیبرپختونخوا کے سوا پورے پاکستان میں ان کے ہم جماعتوں نے اس پر یقین کرلیا۔ تاہم یقین نہ کیا تو صرف خود اس صوبے میں پارٹی کارکنوں نے نہیں کیا۔ یہ وہ صوبہ ہے جس کے بارے میں عمران خان کہتے ہیں کہ پولیس کو غیر سیاسی اور حکومت کے دبائو سے آزاد بنا دیا۔ صوبے میں اپنے لوگوں پر ہاتھ ڈال کر احتساب شروع کیا۔ اسپتالوں میں تبدیلی لے آئے۔ اسکول بہتر ہوگئے، بلدیاتی نظام سب سے الگ اور فعال ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے شعبے ہیں جن کا کریڈٹ اس جماعت کے لوگ لیتے ہیں وہ یہ بھی کہتے تھے کہ وہ اس صوبے میں جہاں پانی سے سب سے زیادہ بجلی بنائی جاسکتی ہے وہاں خود بجلی بنا کر سستے ترین نرخوں پر لوگوں کو بیچیں گے۔ یہ ساری باتیں عمران خان صاحب نے اپنے لوگوں کو بتائیں اور انہوں نے بالکل اسی طرح یقین کرلیا جیسا وہ چونسٹھ سال کے پارٹی لیڈر کو اب بھی نوجوان سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس جماعت کے ورکرز خصوصاً وہ جو عمران خان کی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اب بھی ہر بات پر ایسے ہی یقین کرتے ہیں جیسا انہیں کہا جاتا ہے۔ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے لیڈر پر یقین کر کے آگے بڑھیں اور اپنے اپنے صوبوں میں ان کے لئے کام کریں۔
لیکن تھوڑی سی حقیقت کی کھڑکی کھول کر جھانکیں تو عمران خان صاحب جیسے دوراندیش رہنما اور ان کی پارٹی کے تسلط میں رہنے والے صوبے کی حالت یہ ہے کہ اسکے پاس اپنا آئندہ بجٹ بنانے کے پیسے تک نہیں، اس کے وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ انہوں نے بجلی کے خالص منافع کے معاملے پروفاق سے بہتر طریقے سے معاملہ اٹھا کر اپنا کیس لڑا اور مرکز سے اپنا حق حاصل کیا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ آج بھی صوبے کے بارے میں اخباروں میں خبریں نمایاں ہیڈلائنز کے ساتھ چھپ رہی ہیں کہ صوبہ معاشی بحران کا شکار ہے، پولیس کی حالت یہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے اپنے کارکن پیسکو کے گرڈ اسٹیشنوں پر چڑھائی کررہے تھے تو وہ پولیس جس نے ہرصورت ان تنصیبات کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا وہ تماشائی بنی رہی اور حکومتی جماعت کے کارکنوں کو فری ہینڈ دیدیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صوبے میں جب اپنی ہی تنصیبات کو اس طرح نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو اگر چین اور اس جیسے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کئے گئے اور کچھ عرصے بعد یہ ان سے بھی ناراض ہوگئے تو پھر ان منصوبوں کی حفاظت کون کریگا؟
آئیڈیل قرار دیئے گئے محکمہ بلدیات کی حالت یہ ہے کہ اب بھی اپوزیشن کے علاوہ خود حکومتی ناظمین اور دیگر بلدیاتی نمائندے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ رواں مالی سال ختم ہونے کو چند دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی منتخب نمائندوں کو ترقیاتی کاموں کے لئے پیسے نہیں ملے۔ اب بھی بہت سارے منتخب ناظمین اورکونسلر اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں فنڈ اور اختیار نہیں ملا۔ اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ روزانہ بڑے اسپتالوں میں ضرور ہڑتال ہوتی ہے، تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری تو بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی بھی لوگ اچھی تعلیم کے لئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں پرہی انحصار کررہے ہیں۔ صوبے میں بجلی بنانے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بن سکا اور پشاور جیسے شہروں میں ریپڈ بس کے جو اشتہارات ٹی وی چینلز پر دیکھنے کو مل رہے ہیں ان پر ابھی کام بھی شروع نہیں ہوا۔ ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ اس وقت دو پختونخوا ہیں ایک وہ جوعمران خان صاحب کی تقریروں اور پارٹی رہنمائوں وکارکنان کے خوابوں میں ملتا ہے تو دوسرا حقیقی پختونخوا ہے اور ان دونوں کے بیچ کے فرق کو ختم کرنے کے لئے ابھی بہت ساری محنت اور یکسوئی درکار ہوگی جس کے لئے عمران خان کو جنگی بنیادوں پر پارٹی کے بہت سارے سمجھدار لوگوں کے سامنے صوبے کی اصل حالت رکھ کران سے مشورہ لینا ہوگا ورنہ لوگوں نے خود آئندہ انتخابات میں فیصلہ کرلیا تو پھر ایف آئی آر کٹنے کے بعد کوئی بھی پی ٹی آئی کی بات پریقین نہیں کرے گا اور یقیناً دیگر صوبوں کے پارٹی ورکرز بھی شاید عمران خان کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے صوبے کو بھی خیبرپختونخوا بنادیں۔