• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا کہ میں ہر وقت پابہ رکاب رہتا تھا، اگر بیرون ملک کا سفر درپیش نہیں تو چک جھمرہ ہی سے ہو آتا تھا۔ جوتی پر جوتی چڑھی دیکھتا تو چہرے پر رونق آجاتی کہ یہ سفر کا اشارہ سمجھا جاتا ہے، یعنی بس کسی سفر پر روانہ ہونے ہی والا ہوں ، لیکن اب؟ بس کچھ نہ پوچھیں ، سفر کا سوچتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، تین چار ماہ قبل لندن سے دو تقریبات کے دعوت نامے بمعہ بزنس کلاس ٹکٹ کے موصول ہوئے، میں ائیر پورٹ بھی چلا گیا، بورڈنگ کارڈ بھی لے لیا مگر امیگریشن کائونٹر تک پہنچتے پہنچتے ارادہ متزلزل ہوگیا، عزیر احمد بھی’’حسب معمول‘‘ میرے ساتھ تھے۔ میں نے کہا’’عزیر صاحب جانے کو جی نہیں چاہ رہا‘‘ بولے ’’تو نہ جائیں‘‘، چنانچہ ان کی حوصلہ افزائی کے ’’بل بوتے‘‘ پر میں نے بورڈنگ کارڈ کینسل کردیا، جو سامان بک کراچکا تھا، خدا کا شکر ہے کہ وہ ابھی جہاز میں نہیں پہنچا تھا، چنانچہ سامان واپس لیا اور خیر سے بدھو گھر کولوٹ ا ٓئے۔
مگر کبھی کبھار ایسے بھی ہوتا ہے کہ آپ انکار کی پوزیشن ہی میں نہیں رہتے۔ بہت خوبصورت نوجوان شاعر اور مجھے بہت ہی عزیز قمر ریاض نے جب تقریباً ڈھائی ملین روپے کی لاگت سے میری تصویری سوانح عمری شائع کی جواعلیٰ کاغذ ،طباعت اور لے آئوٹ کے علاوہ اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل قرار پائی کہ اس میں میرے بچپن سے آج تک کا جو تصویری سفر شامل کیا گیا تھا، اس سفر میں برصغیر پاک و ہند کے تمام شعبوں ، ادب، سیاست، صحافت سفارت، سائنس، مصوری، گلوکاری اور اداکاری کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ زندگی ہو جس کی صف اول کی شخصیات اس سفر میں میرے ہمراہ نہ رہی ہوں، یہ اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی چنانچہ اس کی بے پناہ پذیرائی اسلام آباد میں ہوئی جہاں صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے اس کا افتتاح کیا اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی اس حوالے سے تقریبات کا اہتمام کیا گیا، چنانچہ جب لندن سے برادر عزیز احسان شاہد کا فون آیا کہ اب آپ کو اس حوالے سے برطانیہ بھی آنا پڑے گا، میں جب کبھی لندن کے بارے میں سوچتا ہوں تو احسان شاہد کا خیال آتا ہے، احسان شاہد کا خیال آئے تو لندن کی یاد آتی ہے، چنانچہ انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی، سو میں برادرم عزیر احمد کے ساتھ برطانیہ کے لئے روانہ ہوگیا جہاں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب ابن عباس سید نے ہائی کمیشن میں تقریباً دو سو ممتاز پاکستانیوں کو کتاب کی رونمائی کے حوالے سے ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ انسان جب برطانیہ جاتا ہے تو پھر لندن تک محدود نہیں رہتا، چنانچہ برمنگھم میں ہمدم دیرینہ عباس ملک کی وساطت سے قونصل جنرل پاکستان جناب احمد معروف نے قونصلیٹ میں قمر ریاض کی مرتب کردہ میری تصویری سوانح کی رونمائی کا اہتمام کیا تھا اور یہ تقریب بھی بہت یادگار رہی۔ کالم نگار بلکہ مزاح نگار پروفیسر طارق احمد نے لاہور ہی سے مجھے نیو کاسل کیلئے’’بک‘‘ کرلیا تھا، یہاں جو تقریب منعقد ہوئی وہ بہت مناسب تھی، مگر جو ’’تقریبات‘‘ طارق کے گھر پر ڈنرز اور ناشتوں کے مواقع پر پاکستان سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہونے والے صف اول کے ڈاکٹروں، انجینئرز اور آئی ٹی کے افراد سے ہوئیں وہ یادگار تھیں، ہم نے یہاں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والا سنسنی خیز کرکٹ میچ بھی دیکھا اور پاکستان کی غیر متوقع جیت پر صف اول کے ان دوستوں نے جس طرح دھمال ڈالی اور بڑھکیں لگائیں اس کا مزا بھی میچ کے برابر برابرہی تھا، اس میچ کی اہمیت یوں بھی تھی کہ یہ یونس خان اور مصباح الحق کا ریٹائرمنٹ سے قبل آخری میچ تھا اور یہ دونوں سرخرو ہوئے۔ طارق اور ان کی اہلیہ فرزانہ دونوں یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور نیو کاسل میں ان کا گھر پڑھے لکھے پاکستانیوں کا ہیڈ آفس ہے۔
ان دنوں منصور آفاق بھی برطانیہ آئے ہوئے تھے کہ ان کی بیگم اور صف اول کی شاعرہ حبیب یاسمین علیل تھیں، چنانچہ برمنگھم کی تقریب میں شمولیت سے قبل میں احسان شاہد اور عزیر احمد ان کی عیادت کے لئے پھول لے کر ان کے ہاں گئے، برمنگھم ہی میں پیر لخت حسنین کے عشائیے میں بھی شریک ہوئے، پیر صاحب میرے پسندیدہ پیروں میں سے ہیں کہ عبادات اور خلق خدا کی خدمت اور فلاحی کاموں کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر اقتدار چیمہ سے بھی ملاقات ہوئی جو دانشور ہیں اور دانشور کیوں نہ ہوں آخر میرے دانشور بیٹے علی عثمان قاسمی کے دوست ہیں۔
اور یہ جو میں نے کالم کے آغاز میں سفر سے کم ہوتی رغبت کے بارے میں کچھ باتیں کی تھیں تو میرا خیال ہے کہ کچھ عرصے بعد احسان شاہد جو ابھی تک میرے سابقہ شوق کے پیروکار ہیں یعنی ہر دو تین ماہ بعد مختلف ملکوں کی سیاحت کو نکل جاتے ہیں، میں اگر ایک دو دفعہ مزید برطانیہ گیا تو انہیں سیاحت کے لئے برطانیہ سے باہر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی کہ برطانیہ میں میری موجودگی کے دنوں میں وہ برطانیہ بھر میں میرے ساتھ اتنا گھومتے ہیں اور جس طرح بارہ بارہ گھنٹے ڈرائیو کرتے ہیں اس کے بعد ان کی سیروسیاحت کی خواہش ہی دم توڑ سکتی ہے۔ اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو کہ سفر واقعی وسیلہ ظفر ہے اور یہ سیاحت ہی کا نتیجہ ہے کہ مجھے بہترین دوست سیاحت کے دوران ہی ملے۔

تازہ ترین