بڑی مہارت سے جے آئی ٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے حسین نواز کی ایک تصویر سلیکٹ کی گئی اور اسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا گیا جس کا مقصد وزیراعظم نوازشریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانا تھا۔ اس فوٹو کو سب سے پہلے ٹوئٹر پر ایک ایسے اکائونٹ کے ذریعے جاری کیا گیا جس کو استعمال کرنے والے صاحب کی شناخت نامعلوم ہے۔ یہ ان ہزاروں ہینڈلر میں سے ہے جو عام لوگوں کیلئے بے نام ہیں مگر سوجھ بوجھ رکھنے والے جانتے ہیں یہ کون ہیں۔ اگر ایف آئی اے کا سائبر ونگ اور دوسرے ادارے چاہیں تو ان نامعلوم افراد کا بڑی آسانی سے کھوج لگا سکتے ہیں۔ حسین نواز کی تصویر اس دن کی ہے جب وہ 28 مئی کو پہلی بار جے آئی ٹی کے سامنے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں پیش ہوئے تھے۔ تصویر جاری کرنے کا مقصد شریف فیملی کی تذلیل اور تضحیک کرنا تھا ،یہ کہ اس کو کس طرح بے رحم احتساب کے شکنجے میں کسا گیا ہے اور یہ اب کتنی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے مگر یہ سب خواہشیں اور تدبیریں الٹی ہو گئیں کیونکہ حسین کی تصویر نے شریف فیملی کو بطور مظلوم کے پیش کیا اور اس کیلئے ہمدردی پیدا کی یعنی اسے اس فوٹوکی وجہ سے فائدہ ہی ہوا نقصان نہیں۔ اس سوال کا جواب کہ یہ تصویر لیک کیسے ہوئی اور یہ کس نے جاری کی ڈھونڈنا بڑا آسان اور سادہ ہے اگر یہ تعین کر لیا جائے کہ جوڈیشل اکیڈمی کس کے کنٹرول میں ہے۔ ہمارے ساتھی عمر چیمہ جو جے آئی ٹی کے سامنے دو بار پیش ہو چکے ہیں کے مطابق اکیڈمی منسٹری آف ڈیفنس کے کنٹرول میں ہے۔ عمر کے مطابق اکیڈمی کے اندر جے آئی ٹی کے اجلاسوں کے متعلق تمام انتظامات بشمول اس کے ممبرز کا سٹنگ ارینجمنٹ بھی ایم او ڈی کا ہے۔ ایف آئی اے کے واجد ضیاء جو جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں کے دائیں بائیں ایجنسیوں کے افسران بیٹھتے ہیں۔ چونکہ ہم میں سے بہت سے لوگ اور خصوصاً سیاستدان اپنے چھوٹے بڑے مقاصد کیلئے بیکار بحث کے بڑے شوقین ہیں لہٰذا ہم اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ یہ تصویر کس نے جاری کی اور بالآخر اس کا فائدہ کس کو ہوا۔ حالانکہ معمولی سی سوجھ بوجھ والے شخص کیلئے اس نتیجے پر پہنچنا کہ اس فوٹو ریلیز کے پیچھے کون ہے قطعاً مشکل نہیں ہے۔
جے آئی ٹی کی تمام کارروائی کی جو آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی ہے یہ کس کے کنٹرول میں ہے؟ کیا اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ یا انٹیلی جنس بیورو کے پاس ہے بالکل نہیں تو پھر حکومت کو اس فوٹو لیک کا ذمہ دار قرار دینا سوائے احمقانہ پن کے اور کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں شریف فیملی کے وکیل خواجہ حارث کم از کم دو بار کہہ چکے ہیں کہ یہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کئی فیصلے دے چکی ہے مگر عدالت نے جے آئی ٹی کو اس ریکارڈنگ سے منع نہیں کیا۔ پمزسے ایمرجنسی میں جوڈیشل اکیڈمی ایمبولینس منگوانا بھی تصویر جاری کرنے والے کھیل کا پارٹ ٹو تھا مقصد یہ تھا کہ عام لوگوں میں یہ تاثر دیا جائے کہ حسین نواز جے آئی ٹی کے سوالات کی وجہ سے ’’کولیپس‘‘کر گئے ہیں اور ایمبولینس ان کیلئے منگوائی گئی ہے حالانکہ جوڈیشل اکیڈمی میں تمام کارروائی نارمل طریقے سے چل رہی تھی اور کوئی ایمرجنسی والی صورتحال نہیں تھی۔ پکچر لیک اور ایمبولینس والے ایکٹس وہ مقاصد حاصل نہیں کرسکے جن کیلئے یہ ڈرامہ کیا گیا۔ کچھ ’’فرٹائل‘‘ ذہنوں کا خیال ہے کہ اس سارے کھیل کا مقصد پرویز مشرف کے ساتھ حکومت کی طرف سے ہونے والے سلوک کا جواب ہے تاکہ وزیراعظم کو معلوم ہو کہ ان کے اور ان کی فیملی کے ممبرز کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ پرویز مشرف کے ساتھ ان کی حکومت نے کیا تھا۔ اسپیشل کورٹ جو کہ سنگین غداری کے مقدمے کے ٹرائل کیلئے بنائی گئی کے بار بار طلب کرنے کے باوجود بھی مشرف اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے اور جب ایک بار وہ اپنے چک شہزاد والے فارم ہائوس سے عدالت میں پیشی کیلئے نکلے تو راستے سے ہی وہ بجائے کورٹ میں آنے کے راولپنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں چلے گئے یہ کہتے ہوئے کہ ان کی طبعیت خراب ہے ۔ اس کے بعد پھر وہ کئی ماہ وہیں رہے۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ مشرف کی اسپتال منتقلی میں حکومت کا ہاتھ ہے۔ اب جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران ایمبولینس بلا کر کیا پیغام دینا مقصود تھا جبکہ جوڈیشل اکیڈمی میں کسی کو بھی ایمرجنسی سروس کی ضرورت نہیں تھی۔ حسین نواز اور حسن نواز نان ریزیڈنٹ ہونے کے باوجود جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر بار بار اس کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور شریف فیملی کے دوسرے ممبرز کا بھی کہنا ہے کہ اگر انہیں بلایا گیا تو وہ بھی جے آئی ٹی کے سامنے حاضر ہو جائیں گے ۔دوسری طرف پرویز مشرف تو فوجداری مقدمات کے خوف کی وجہ سے پاکستان سے بھاگ گئے حالانکہ وہ یہ کہہ کر ملک سے گئے تھے کہ وہ چھ آٹھ ہفتے بعد بیرون ملک علاج کروا کے واپس آ جائیں گے مگر اب تو کئی ماہ گزر چکے ہیں اور ان کی واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
فوٹو لیک کو حسین کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے اٹھایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس پر ایک کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے۔ عدالت پیر کو اس پر دلائل سنے گی اور فیصلہ دے گی۔ اس دوران اس نے جے آئی ٹی سے فوٹو لیک کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ دریں اثنا سیاسی جماعتوں کے درمیان ’’جنگ و جدل‘‘ جاری ہے کہ حسین کی تصویر کس نے ریلیز کی ہے اور اس کا کس کو فائدہ ہوا، جے آئی ٹی صحیح کام کر رہی ہے ؟اپنے سامنے پیش ہونے والوں کو صحیح عزت و احترام سے پیش آ رہی ہے یا ان کی تذلیل کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے جو پارٹیاں جے آئی ٹی کی سخت مخالفت کر رہی تھیں اور یہ دھمکیاں دے رہی تھیں کہ اگر اس نے ان کی مرضی کے مطابق کام نہ کیا تو وہ سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیں گی اب اس کمیٹی کی تعریف کر رہی ہیں۔ پہلے جو جماعتیں جے آئی ٹی کو ویلکم کر رہی تھیں اب اس کی مذمت کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ شریف فیملی کے خلاف صف آرا ہے۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان عامر عزیز اور بلال رسول پر نون لیگ کو سخت اعتراض ہے حالانکہ اتنے اعتراض کے بعدانہیں کمیٹی سے الگ ہو جانا چاہئے تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے حکومت کے جے آئی ٹی پر لگاتار حملوں نے اسے بہت ہی متنازع بنا دیا ہے تاہم سپریم کورٹ نے اس کی دوسری رپورٹ جو کہ بدھ والے دن پیش کی گئی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اب تک جے آئی ٹی ایک مہینہ کام کر چکی ہے اور اس کو دئیے گئے وقت میں سے اب صرف چار ہفتے رہ گئے ہیں کیونکہ اس نے 60 دن میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جے آئی ٹی کو ایک دن بھی مزید نہیں دیا جائے گا۔ نہیں معلوم جے آئی ٹی کو کیا رکاوٹیں اور مسائل درپیش ہیں جس کا ذکر اس نے اپنی رپورٹ کے پہلے حصے میں کیا ہے اور اب وہ عدالت کے حکم کے مطابق ایک باقاعدہ درخواست کورٹ کے حوالے کر رہی ہے۔ جہاں تک جے آئی ٹی کے حق اور مخالفت میں سیاسی بیانات کا تعلق ہے یہ تو چلتے رہتے ہیں مگر جہاں تک اس کی طرف سے طلب کئے گئے سیاسی افراد کا تعلق ہے تو وہ تو سارے اس کے سامنے بلاجھجک پیش ہو رہے ہیں تو پھر اسے کیسے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔