کراچی(جنگ نیوز)وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی تعظیم حکومت نہیں کرتی بلکہ پارلیمنٹرینز کرواتے ہیں، اپوزیشن کو واقعی سوالات کے جواب چاہئیں تو پارلیمنٹ میں سوالات پیش کر کے ان کا جواب سننے کیلئے وہاں بیٹھیں، عمران خان کتنی دفعہ بجٹ سیشن میں آئے ،کتنی دفعہ پارلیمنٹ میں کسی بحث میں حصہ لیا ، تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ اگر اسمبلی میں عوام کے مسائل حل ہورہے ہوتے تو اپوزیشن اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرتی۔
وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میزبان حامد میر سے گفتگو کر رہے تھے ۔حامد میر نے کہا کہ آج قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی اتحاد میں شمولیت سے متعلق اہم سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ جنرل راحیل شریف کو کن شرائط پر این او سی جاری کیا گیا ہے.
اپوزیشن نے سوالات اٹھانے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ کے حوالے سے اہم تقریر کے باوجود اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔حامد میر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسی کی حمایت کی محتاج نہیں ہے، پاکستان کا آئین و قانون سپریم کورٹ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، وہ لوگ جو ماضی میں سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں نازیبا ریمارکس دے چکے ہیں.
موجودہ صورتحال میں جب وہ سپریم کورٹ کے ججوں کی حمایت کرتے ہیں تو ان کے بارے میں سوال اٹھتا ہے، سپریم کورٹ کو اس قسم کے لوگوں کی کسی حمایت کی نہ ضرورت ہے نہ سپریم کورٹ محتاج ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی گفتگو مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست دکھانا نہیں چاہتی ہے، اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپنی تقریر کو لائیو دکھانے کیلئے کہا لیکن اس وقت سرکاری ٹی وی پر تمام جگہ کمرشل سلاٹس کی تھی اور اس کیلئے جگہ نہیں نکل رہی تھی، میں نے اس موقع پر اسٹریم دینے کی پیشکش کی جہاں سے تمام چینل اس تقریر کو اٹھاسکتے تھے.
اسمبلی کی کارروائی نشر کرنے کیلئے پارلیمنٹ اپنا چینل بنائے یا لائیو اسٹریمنگ شروع کی جائے تاکہ جو چینل چاہے اسے نشر کردے، یہ بات درست نہیں کہ حکومت لائیو اسٹریمنگ کی حامی نہیں ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کارروائی لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دکھا سکتے ہیں۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی تعظیم حکومت نہیں کرتی بلکہ پارلیمنٹرینز کرواتے ہیں.
جب پارلیمنٹرینز پارلیمنٹ پر حملہ کرتے اور اس کے باہر اپنے دھلے ہوئے کپڑے ٹانگتے ہیں تو پارلیمنٹ کی قدر وقیمت کیا رہ جاتی ہے، جب پارلیمنٹرینز پارلیمنٹ سے استعفے دیتے ہیں اور پھر واپس اسی پارلیمنٹ میں آتے ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھے پارلیمنٹرینز کو ڈاکو اور پارلیمنٹ کو چور پارلیمنٹ کہا جاتا ہے تو پارلیمنٹ اس وقت بے معنی ہوتی ہے، پارلیمنٹ ایک خودمختار باڈی ہے اسے حکومت مضبوط نہیں کرتی ہے، اپوزیشن جب مثبت کردار ادا کرتی ہے تب ہی پارلیمنٹ کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے، حکومت اگر چاہے تو بھی پارلیمنٹ کو نظرا نداز نہیں کرسکتی ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سوالات کر کے پارلیمنٹ سے بائیکاٹ کرجاناسیاست ہوتی ہے، اگر اپوزیشن کو واقعی سوالات کے جواب چاہئیں تو پارلیمنٹ میں سوالات پیش کر کے ان کا جواب سننے کیلئے وہاں بیٹھیں، عمران خان کتنی دفعہ بجٹ سیشن میں آئے ،کتنی دفعہ پارلیمنٹ میں کسی بحث میں حصہ لیا اور کتنی دفعہ اپنی تقریر کر کے واک آؤٹ کر گئے، پارلیمنٹ میں جب بھی وزیراعظم کی موجودگی ضروری ہوتی ہے وہ پارلیمنٹ میں موجود ہوتے ہیں، وزیراعظم کل پارلیمنٹ میں آئیں گے یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سعودی اتحاد سے متعلق وزیردفاع آگاہ کرچکے ہیں،مسلم ملکوں کے اتحاد میں پاکستان کی پوزیشن پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی ہے تو اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اپوزیشن سعودی فوجی اتحاد سے متعلق حکومتی جواب پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سنے واک آؤٹ نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو پتا ہے جے آئی ٹی کیسے کام کرتی ہے، جے آئی ٹی بنانا اور ارکان منتخب کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، وزیراعظم نے پہلے دن جے آئی ٹی بنانے کیلئے کہا تھا، نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں وہ سڑک پر نکلتے ہیں تو لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے، ن لیگی کارکن وزیراعظم کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے ان کے ساتھ آنا چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم نے انہیں روک دیا، وزیراعظم نے تمام کارکنوں سے کہہ دیا ہے کہ جمعرات کو کسی کارکن کو اسلام آباد آنے کی ضرورت نہیں ہے، اسلام آباد میں وزیراعظم کے حق میں لگنے والا بینر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے اس سے کسی کو کیوں ڈر ہے،اسلام آبادمیں وزیراعظم کے حق میں بینر اگر سی ڈی اے کی مرضی سے لگا ہے تو اس میں کیا مسئلہ ہے، اگر یہ بینر سی ڈی اے کی اجازت سے لگا ہے تو اس مہم کیلئے نمبر دیا گیا ہوگا، تمام سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں بینرز لگاسکتی ہیں سی ڈی اے نے کسی کو بینر لگانے سے نہیں روکا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی گفتگو اسد عمر نے کہا کہ قومی اسمبلی سے اپوزیشن کے بائیکاٹ کی وجہ خورشید شاہ کی تقریر کی لائیو کوریج نہ ہونا بھی تھی، جب حکومت چاہتی ہے تو کارروائی براہ راست نشر ہونے میں تیکنیکی وجوہات آڑے نہیں آتی ہیں، حکومت نے قومی اسمبلی کو بے معنی بنادیا ہے، اگر اسمبلی میں عوام کے مسائل حل ہورہے ہوتے تو اپوزیشن اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کی میٹنگ میں بتایا تھا کہ اسمبلی کے اجلاس کی لائیوا سٹریمنگ کی جائے گی، اگر ایاز صادق کو لائیو اسٹریمنگ کیلئے حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تو یہ کام شروع کردینا چاہئے، اجلاس کی کارروائی براہ راست نشر ہونے سے ارکان اسمبلی کی حاضری بڑھ جائے گی اور سب تیاری کے ساتھ آئیں گے جس سے اسمبلی میں بحث و مباحثہ کا معیار بڑھ جائے گا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بننے یا نہ بننے کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے، جنرل راحیل شریف کی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ضروری تھا، حکومت پارلیمنٹ کو کمزور کر کے بہت بڑی غلطی کررہی ہے، پارلیمنٹ کو جتنی اہمیت دی جائے گی اتنی ہی جمہوریت اور حکومت مضبو ط ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے وزیراعظم کل گیارہ بجے اسمبلی میں موجود ہوں گے اور قوم کو اعتماد میں لیں گے اور پوچھے گئے سوالات کا جواب بھی دیں گے، وزیراعظم کل پارلیمنٹ آتے ہیں تو اپوزیشن ہڑبونگ نہیں کرے گی، حکومت جب بھی کوئی قومی معاملہ اسمبلی میں لائی تو تمام پارلیمنٹرینز نے اپنے اختلافات بھلا کر متفقہ پوزیشن اختیار کی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ مریم اورنگزیب مجھے درس نہ دیں کہ اسمبلی میں جانا کتنا ضروری ہے کیونکہ میں ان سے زیادہ اسمبلی میں جاتا ہوں، حکومت نے پچھلے تین سال میں تیس ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے لیے لیکن کسی کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے نہیں لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی وزراء جے آئی ٹی کو سیدھی دھمکیاں دے رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جب جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تو ن لیگی وزراء خوشی سے پاگل ہورہے تھے، تین نسلوں کے بارے میں سوال جے آئی ٹی نے نہیں سپریم کورٹ نے پوچھے ہیں، سپریم کورٹ کے سوالات جدہ کی اسٹیل مل سے شروع ہو کر حسن نواز کے کاروبار اور فلیٹس تک جاتے ہیں،حسین نواز کی تصویر لیک نہیں ہونی چاہئے تھی، جس نے تصویر لیک کی اس کیخلاف کارروائی ہونا چاہئے، جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی ہے اسے کام کرنے دیا جائے دھمکیاں نہ دی جائیں۔
اسد عمر نے کہا کہ ن لیگ کے پاس قانون توڑنے، سپریم کورٹ پر حملے کرنے ، ڈکٹیٹروں کے ساتھ سیاست کرنے ، منتخب حکومت کیخلاف فوج کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے اور آئی جے آئی بنوانے کا جو تجربہ ہے وہ پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے، اسلام آباد کے میئر کے پاس عوام کو پانی فراہم کرنے کیلئے بجٹ نہیں لیکن وزیراعظم کی شان میں بڑے بڑے بینرز لگانے کیلئے بجٹ موجود ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ امید ہے میاں نواز شریف جمعرات کو جے آئی ٹی کے سامنے آئیں گے ، اگر ایک طرف سے ہزاروں لوگ نکلیں گے تو دوسری طرف سے بھی ہزاروں لوگ نکلیں گے اور خوامخواہ ماحول خراب ہوگا، جج کے فیصلے کی تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اس کی نیت پر رائے نہیں دی جاسکتی ہے، اگر فواد چوہدری نے ایسا کیا تھا تو غلط کیا تھا ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
کیپٹل ٹاک میں اسد عمر اور مریم اورنگزیب کے درمیان گرما گرم بحث اسد عمر: اسلام آباد کے میئر کے پاس عوام کو پانی فراہم کرنے کیلئے بجٹ نہیں لیکن وزیراعظم کی شان میں بڑے بڑے بینرز لگانے کیلئے بجٹ موجود ہے، یہ اسلام آباد کے شہریوں کے ساتھ ظلم ہے یا نہیں ۔ مریم اورنگزیب: کون سا بینر لگایا ہے؟
اسد عمر: constitution avenue کی شروعات جہاں پر گلوب بنا ہوا ہے اس کے پیچھے جہاں پر ڈپلومیٹک انکلیو کی enterance ہے پورا قد آور، وزیراعظم کی عظمت کو سلام، میئر اسلام آباد۔ مریم اورنگزیب: اسد بھائی آپ کو یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ آپ کو اصل بات بھی پتا ہوتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ جوا س طرح کہہ دینا کہ یہ سارے بینرز جو لگے ہیں یہ سی ڈی اے نے لگائے ہیں خدا کا واسطہ پہلے تحقیق کرلیں۔
اسد عمر: میئر اسلام آباد، نام لکھ کر ، میئر اسلام آباد بینر لگا ہوا ہے۔ مریم اورنگزیب: انہوں نے عظمت کو سلام ، کب لگایا ہے ذرا بتادیں؟
اسد عمر: میں آپ کو درست لوکیشن بتاچکا ہوں۔ مریم اورنگزیب: میرا مطلب ہے وہ بینر کب لگا ہے، کل لگا ہے؟ اسد عمر: دو ہفتے پہلے لگا ہوا تھا۔ مریم اورنگزیب: ہاں تو دو ہفتے پہلے وہ جے آئی ٹی میں جارہے تھے، اگر کسی وجہ سے عظمت کو سلام ، وزیراعظم نے اچھا کام کیا ہے، یہ بالکل غلط statements of facts ہے۔ اسد عمر: مریم اگر یہ سچ نکلا تو آپ کیا بولیں گی؟ مریم اورنگزیب: انہوں نے کہا کہ دو ہفتے پہلے بینر لگا، جے آئی ٹی کا فیصلہ دو دن پہلے ہوا۔ اسد عمر: اس کا جے آئی ٹی کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔